وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۴﴾ ’’اور جو کچھ بھی تم کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے‘‘.جب وہ ہر جگہ ‘ہر آن تمہارے ساتھ ہے تو جو کچھ تم کر رہے ہو وہ اسے خود دیکھ رہا ہے. و ہ تمہارے سب اعمال کا چشم دید گواہ ہے . آگے چل کر دسویں آیت کے اختتام پر الفاظ آتے ہیں : وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿٪۱۰﴾ ’’جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے‘‘. یہ دونوں جملے اسی ترتیب سے سورۃ التغابن میں بھی آئے ہیں. بصارت اور خبر کے متعلق ہمارا عمومی تصور یہ ہے کہ بصارت یقین کا آخری درجہ ہے‘ جب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو گویا یقین کا آخری درجہ حاصل ہو گیا‘ لیکن قرآن مجید میں جو ترتیب آتی ہے اس میں ’’بصیر‘‘ کو ’’خبیر‘‘ سے مقدم کیا گیا ہے. یعنی پہلے صفت بصارت کا ذکر آتا ہے‘ بعد میں صفت خبر کا. اس لیے کہ خبر اصل شے ہے‘ کیونکہ آنکھ بھی دھوکہ دے سکتی ہے ؏ 

ہر چہ می بینم بہ بیداری ست یارب یا بخواب؟
آدمی بعض اوقات شش و پنج میں پڑ جاتا ہے کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں واقعتا صحیح دیکھ رہاہوں؟ کچھ illusions بھی ہوتے ہیں. چنانچہ اصل خبر وہ ہے جو انسان کے باطن کے اندر پہنچ جائے. بہرحال خبر کی طرح بصارت بھی اللہ تعالیٰ کی صفت علم کا بہت بڑامظہر ہے.