اس سورۂ مبارکہ کی دوسری آیت میں لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ کے بعد ارشاد ہوا تھا : یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲﴾ ’’زندگی اور موت اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے‘‘. اس لیے کہ حکومت کے ساتھ ایک لازمی تصور قدرت و اختیار کا ہے. وہ حکومت ہی کیا جو مجرموں کو سزا نہ دے سکے اور وفاداروں کو بدلہ نہ دے سکے‘ انہیں کوئی انعامات نہ دے سکے! اگر کسی حکومت کو جزا و سزا کا اختیار نہیں اور وہ معاملات کا فیصلہ کرنے کے قابل نہیں تو وہ حکومت ہی نہیں ہے. لہذا یہاں اس پہلو کو نمایاں کیاگیا : وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ ﴿۵﴾ ’’اور تمام معاملات (فیصلے کے لیے ) بالآخر اُسی کی طرف لوٹا دیے جائیں گے‘‘.اُس کے حضور میں پیش کر دیے جائیں گے. آخری فیصلے وہاں ہوں گے. اس روز یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ وہ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ (جزا و سزا کے دن کا مالک) ہے. اس روز آنکھوں پر پڑے پردے ہٹ جائیں گے. اُس روز کہا جائے گا : فَکَشَفۡنَا عَنۡکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الۡیَوۡمَ حَدِیۡدٌ ﴿۲۲﴾ (قٓ) ’’ آج ہم نے تمہاری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا ہے اور آج تمہاری نگاہ خوب تیز ہے‘‘. دیکھ لو آج کے دن کس کے لیے بادشاہی ہے؟ تم دنیا میں اپنی بادشاہی کے دعوے دار تھے. لِمَنِ الۡمُلۡکُ الۡیَوۡمَ ؕ لِلّٰہِ الۡوَاحِدِ الۡقَہَّارِ ﴿۱۶﴾ (المؤمن) آج کے دن بادشاہی صرف اُس اللہ کے لیے ہے جو الواحد اور القہار ہے. تو یہاں فرمایا گیا : وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ ﴿۵﴾ ’’اور تمام معاملات فیصلے کے لیے اُسی کی طرف لوٹا دیے جائیں گے‘‘. تُرْجَعُ فعل مجہول ہے. یہاں تَرْجِعُ نہیں ہے. یعنی خواہی نخواہی تمام معاملات اس کے حضور پیش کر دیے جائیں گے‘ تم چاہو یا نہ چاہو تمام معاملات اللہ کی طرف لوٹا دیے جائیں گے اور آخری فیصلے کے لیے اسی کی عدالت میں پیشی ہو گی.