گردشِ لیل و نہار میں انسان کے لیے سامانِ معرفت

یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ یُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ؕ ’’وہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں‘‘. یہ قرآن مجید کی ایک صنعت ِلفظی ہے کہ ایک ہی مادے سے بننے والے الفاظ کا استعمال قریب قریب ملتا ہے. اسی کی ایک مثال یہاں ہے . چنانچہ ابھی ہم نے پڑھا : یَعۡلَمُ مَا یَلِجُ فِی الۡاَرۡضِ ’’وہ جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتا ہے‘‘. وَلَجَ ‘ یَلِجُ ثلاثی مجرد سے ہے.اسی مادے سے باب افعال میں اَوْلَجَ ‘ یُوْلِجُ‘ اِیْلَاجًا ہے .یعنی کسی شے کو کسی میں داخل کرنا. فرمایا: یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ یُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ؕ ’’وہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں‘‘. اس کا اصل مفہوم سمجھئے. یہ مضمون بھی دراصل دوسری مرتبہ آ گیا ہے. پہلے ہم نے پڑھا : یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ’’وہی مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے‘‘. اگر ہم کہیں ’’نَمُوْتُ وَنَحْیَا‘‘ کہ ہم خود زندہ رہتے ہیں‘ خو دمرتے ہیں تو یہ کفر ہے‘ محجوبیت ہے‘ غفلت ہے. گویا اللہ سے بعد ہے. یہ یقین کہ اللہ زندہ رکھتا ہے‘ اللہ ہی مارتا ہے‘ یہی معرفت‘ ہدایت اور ایمان ہے. سائنس کے زیر اثر ہماری سوچ یہ بن گئی ہے کہ رات اور دن ایک دوسرے کے پیچھے آ رہے ہیں. گویا خود بخود آ رہے ہیں. چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ کائنات کا نظام خود بخود چل رہا ہے. بنانے والے نے ابتدائے آفرینش میں کچھ قوانین بنا دیے تھے‘ جن کے زیر اثر اب یہ نظام خود بخود چل رہا ہے. اس تصور کی نفی کرتے ہوئے فرمایا گیا : یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ ’’وہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں‘‘ وَ یُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ؕ ’’اور وہ داخل کرتا ہے دن کو رات میں‘‘. اس نے زمین‘ سورج اور چاند کی گردش کا پورا نظام قائم کیا جس کے نتیجے میں دن رات ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں.

فرض کیجیے اگرسورج ایک جگہ کھڑا رہتا تو ہر چیز روشن ہوتی‘ لیکن شاید انسان کو یہ معلوم نہ ہو سکتا کہ روشنی سورج سے آ رہی ہے. اس لیے کہ ہر چہار طرف روشنی سے یہ مغالطہ ہو سکتا تھا کہ ہر شے از خود روشن ہے. یہ تو سورج حرکت کرتا ہے اور سایہ اس کے ساتھ گھٹتا بڑھتا ہے تو ہمیں معلوم ہو رہا ہے کہ روشنی اصل میں سورج کی ہے. جب سورج غروب ہوجاتا ہے اور روشنی ختم ہو جاتی ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ روشنی دراصل سورج کی روشنی ہے. یہی معاملہ ان چیزوں کا ہے جو بظاہر خود بخود ہو رہی ہیں. ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہم کھانا کھاتے ہیں تو بھوک مٹ جاتی ہے. بھوک سے کمزوری محسوس ہو رہی تھی‘ کھانے سے توانائی آ گئی‘ ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس کھانے میں یہ تاثیر ہے کہ اس سے جسم میں قوت آ جاتی ہے. اسی طرح پانی پیاس ختم کرتا ہے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پانی کی تاثیر ہے کہ پیاس بجھ جاتی ہے. اب اللہ ہمارے ذہن سے نکل گیا اور ہم اللہ سے محجوب ہو گئے . چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ امام رازیؒ نے بڑی پیاری بات کہی ہے کہ جو عقولِ اعلیٰ یعنی بلند سطح کی عقول کے حامل لوگ ہیں‘ جن کو حقائق مستحضر رہتے ہیں‘ ان کا کہنا یہ ہے کہ:

مَا رَاَیْتُ شَیْئًا قَطُّ وَقَدْ رَاَیْتُ اللّٰہَ قَبْلَہٗ 
’’میں جس شے کو بھی دیکھتا ہوں مجھے اس سے پہلے اللہ نظر آتا ہے.‘‘

اور جو عقولِ متوسطہ کے حامل ہیں وہ یہ کہتے ہیں : 

مَا رَاَیْتُ شَیْئًا قَطُّ وَقَدْ رَاَیْتُ اللّٰہَ مَعَہٗ
’’میں نے جب بھی کسی شے کو دیکھا‘ مجھے اس کے ساتھ ہی اللہ نظر آیا.‘‘

اور ایک قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی عقول ادنی ٰ درجے کی ہوتی ہیں ‘ وہ کہتے ہیں کہ 

مَا رَاَیْتُ شَیْئًا قَطُّ وَقَدْ رَاَیْتُ اللّٰہَ بَعْدَہٗ
’’جب بھی میں نے کسی شے کو دیکھا تو اس کے بعد مجھے اللہ نظر آیا‘‘.

کسی شے کو دیکھنے کے بعد اللہ یاد آ جائے تو یہ گویا معرفت کی سب سے نچلی شکل ہے‘ لیکن اللہ کی تخلیق کو دیکھتے رہیں اور اللہ نظر ہی نہ آئے تو یہ محجوبیت ہے‘ گمراہی ہے‘ یہ اللہ 
سے اوٹ میں ہو جانا ہے. سورۃ المطففین میں فرمایا:

کَلَّاۤ اِنَّہُمۡ عَنۡ رَّبِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ ﴿ؕ۱۵
’’بے شک یہ لوگ اُس روز اپنے پروردگار کے دیدار سے اوٹ میں ہوں گے‘‘.

قیامت کے دن وہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دیدار سے محجوب رہ جائیں گے‘ محروم کر دیے جائیں گے‘ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا مشاہدہ نہ کر پائیں گے‘ جس طرح اس وقت دنیا میں محجوب ہیں. وہ اشیاء کو دیکھ رہے ہیں لیکن اللہ کو نہیں دیکھ رہے ہیں‘ جبکہ حقیقت میں جس کے دل میں اللہ موجود ہے‘ معرفت کے کسی درجے میں اسے ایمان باللہ حاصل ہے‘ اسے اللہ ہر جگہ ‘ہر آن ‘ہر لحظہ نظر آتا ہے. چنانچہ ایک بندۂ مؤمن اللہ کا یہ تصور رکھتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے از خود نہیں ہو رہا ‘میرے اللہ کے کرنے سے ہو رہا ہے. یہ اُس کا فیصلہ ہے ؏ ’’ہر چہ ساقی ٔ ماریخت عین الطاف است!‘‘میرے اللہ نے جو کچھ میری جھولی میں ڈال دیا ہے یہ اس کا لطف و کرم ہے ‘ اس کی عطا ہے‘ اس کی دین ہے ‘ اور اس میں یقینا خیرہی خیر ہے.

اب دیکھئے کہ 
یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ یُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ؕ کا مفہوم کیا ہے! ’’وہ پرو لاتا ہے رات کو دن میں اور پرو لاتا ہے دن کو رات میں‘‘. رات کو دن میں اور دن کو رات میں پرونے کا مفہوم سمجھ لیجیے. ایک تصور تو یہ ہے کہ جیسے ایک دھاگے میں تسبیح کے دانے پروئے ہوئے ہیں اور ایک ایک دانہ گر رہا ہے . سیاہ دانہ گرا تو یہ رات ہے اور سفید دانہ گرا تو یہ دن ہے. گویا ؏ ’’میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ!‘‘ اور ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کبھی دن بڑھتا ہے‘ رات گھٹتی ہے تو گویا دن رات میں داخل ہو رہا ہے اور کبھی دن گھٹتا ہے اور رات بڑھتی ہے تو گویا رات دن میں داخل ہورہی ہے.