اب ہم ان آیات کا ذرا تفصیل سے مطالعہ کرتے ہیں. پہلی آیت میں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطاب کس سے ہو رہا ہے؟ 

اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ اَنۡفَقُوۡا لَہُمۡ اَجۡرٌ کَبِیۡرٌ ﴿۷

’’ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر اور خرچ کرو اُس میں سے جس میں اس نے تمہیں خلافت عطا کی ہے .پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں اور انفاق کریں ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے.‘‘اگر صرف اس آیت کے الفاظ کو سامنے رکھا جائے تو امکان موجود ہے کہ یہ خطاب غیر مسلموں‘ یہود و نصاریٰ وغیرہ سے ہو ‘لیکن سیاق و سباق سے اور پوری پانچ آیات کے مطالعہ سے یہ متعین ہو جاتا ہے کہ یہاں اُن سے خطاب نہیں ہے‘ بلکہ یہ خطاب مسلمانوں سے ہے. ان سورتوں کا مجموعی تعارف کراتے ہوئے میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ ان سورتوں میں کفار و مشرکین‘ یہود و نصاریٰ وغیرہ سے خطاب ہے ہی نہیں‘ بلکہ روئے سخن کلیتہً مسلمانوں سے ہے. 

اب دوسرا سوال اٹھتا ہے کہ مسلمانوں میں سے کون لوگ اس کے مخاطب ہیں؟ وہ لوگ کہ جن کی حرارتِ ایمانی میں کچھ کمی ہے‘ معیارِ مطلوب پر نہیں ہے‘ جن کا جذبۂ انفاق جتنا ہونا چاہیے اتنا نہیں ہے‘ جن کا جوشِ جہاد اور ذوقِ شہادت جتنا ہونا چاہیے اتنا نہیں ہے‘ جن میں ضعف ہے اور ایمان اور اعمالِ صالحہ کا جو درجہ مطلوب ہے اس پر پورے نہیں اترتے. یہ ہیں وہ لوگ جن سے یہ خطاب کیا جا رہاہے. اسی لیے اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ کے دو ترجمے ہوں گے : ایک یہ کہ ’’ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول پر‘‘ اور دوسرا یہ کہ’’ ایمان رکھو اللہ اور اُس کے رسول پر‘‘. پہلے ترجمے میں یہ امکان موجود ہے کہ کفار و مشرکین سے خطاب ہو رہا ہے‘ جبکہ دوسرے ترجمہ میں خطاب مسلمانوں سے ہے. میرے نزدیک درحقیقت یہاں خطاب ان کمزور اور ضعیف مسلمانوں سے ہے جن کے اندر حرارتِ ایمانی‘ جذبۂ جہاد اور جوشِ انفاق جتنا ہونا چاہیے نہیں ہے. 

اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن حکیم میں اس آیت کی ہم مضمون آیات کون سی ہیں. سب سے پہلے سورۃ النساء کی یہ آیت ملاحظہ کیجیے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ (آیت ۱۳۶)

’’اے اہل ایمان! ایمان لاؤ (یا ایمان رکھو) اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر بھی جو اُس نے اپنے رسولؐ پر نازل فرمائی اور اس کتاب پر بھی جو اس نے اس سے پہلے نازل فرمائی تھی.‘‘

یعنی اے اہل ایمان! ایمان کا حق ادا کرو…اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! ویسے مانو جیسے ماننے کا حق ہے…اے ایمان کے دعوے دارو! ایمان لاؤ اور ایمان پختہ رکھو اللہ اور اس کے رسولؐپر…الخ
سورۃ الصف ہمارے منتخب نصاب کے حصہ چہارم کا مرکزی درس ہے. اس میں فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ 

’’اے اہل ایمان! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتاؤ ں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دلا دے؟ (وہ یہ ہے کہ) ایمان رکھو (یا ایمان لاؤ) اللہ اور اس کے رسولؐ پر‘ اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے. یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو.‘‘

گویا مخاطب بھی وہ ہیں جن کو ’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا‘‘ کہا گیا اور انہیں حکم بھی ایمان لانے کا دیا جا رہا ہے. 
اس ضمن میں تیسرا مقام سورۃ الحجرات (آیات ۱۴۱۵) کا ہے‘ جہاں یہ مضمون بالکل واضح ہو جاتا ہے. یہ ہمارے منتخب نصاب کے حصہ سوم کی آخری سورت ہے.فرمایا:

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ (آیت ۱۴

’’یہ بدو کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. (اے نبی !) ان سے کہہ دیجیے کہ تم ایمان ہرگز نہیں لائے ‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے (ہم مسلمان ہوگئے‘ ہم نے اطاعت قبول کر لی) جبکہ ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.‘‘

اور وہ حقیقی ایمان جسے اللہ کے ہاں تسلیم کیا جائے گا ‘وہ کیا ہے؟ اس کی وضاحت اگلی آیت میں آ گئی. فرمایا:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 

’’حقیقی مؤمن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر ‘ پھر ہرگز شک میں نہیں پڑے (انہیں یقین کی کیفیت حاصل ہو گئی) اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں. یہی ہیں جو (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.‘‘

یہاں درحقیقت ایمانِ حقیقی کے دو اجزاء بیان کیے گئے ہیں : ایک یقین قلبی اور دوسرا عمل میں جہاد اپنے جان و مال کے ساتھ. اس یقین کے بارے میں علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؎

یقیں پیدا کر اے ناداں ‘ یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری!
ت
و یہاں (سورۃ الحدید میں) درحقیقت اسی ایمانِ حقیقی کا ذکر ہے: اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ یعنی ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر جیسا کہ ایمان کاحق ہے.