اس کے بعد دین کا دوسرا تقاضا ان الفاظ میں بیان کر دیا گیا: وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ ’’اور خرچ کرو اُن چیزوں میں سے جن پر اُس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے‘‘.اس آیت میں چونکہ بہت مختصر الفاظ میں بات آ رہی ہے لہذا انفاق کے ساتھ ’’فی سبیل اللہ‘‘ مذکور نہیں‘ بلکہ مقدر (understood) ہے. اصل انفاق جو مقصود ہے وہ فی سبیل اللہ ہی ہے. اسے اگلی آیت میں کھول دیا گیا: وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟‘‘ انفاق سے عام طور پر مال کا خرچ کرنا مراد لیا جاتا ہے‘ حالانکہ یہ لفظ وسیع المفہوم ہے. اس کی بحث سورۃ المنافقو ن میں ہو چکی ہے کہ نَفَقَ یَنْفُقُ جب ثلاثی مجرد سے آتا ہے تو اس کے معانی کسی چیز کے ختم ہو جانے‘ کھپ جانے اور صرف ہو جانے کے ہوتے ہیں.اور یہ جاندار اور بے جان سب کے لیے آتا ہے. چنانچہ عرب کہتے ہیں کہ نَفَقَتِ الدَّرَاھِمُ (درہم ختم ہو گئے) نَفَقَ الْفَرَسُ (گھوڑا مر گیا).حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی جس حدیث میں آنحضور نے جہاد کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی شخص کے اعمالِ صالحہ کے پلڑے میں کسی شے کا وزن اس گھوڑے یا سواری سے بڑھ کر نہیں ہو گا جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے کام آ گئی‘ وہاں بھی لفظ ’’نُفِقَ‘‘ آیا ہے. گویا یہ لفظ بے جان ا ور جاندار دونوں کے لیے آتا ہے.چنانچہ یہاں انفاقِ مال اور انفاقِ نفس دونوں مراد ہیں. انفاقِ نفس یہ ہے کہ آپ اپنی صلاحیت و قوت ‘محنت اور وقت صرف کر رہے ہیں. ایک انفاقِ مال ہے ‘ کہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل آپ اس کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں. لیکن دونوں پر اس لفظ ’’انفاق ‘‘ کا اطلاق ہو گا. انفاقِ جان کی بلند ترین منزل قتال ہے جب انسان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں حاضر ہو جائے. جو جنگ میں جاتا ہے موت کا خطرہ مول لے کر جاتا ہے. اگر لوٹ آئے تو گویا اسے ایک نئی زندگی ملی ہے‘ورنہ جنگ میں جانے والا تو دراصل اپنی جان کی بازی لگانے کا فیصلہ کر کے گیا ہے. چنانچہ اگلی آیت میں انفاق اور قتال دونوں لفظ آ گئے : لَا یَسۡتَوِیۡ مِنۡکُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَ قٰتَلَ ؕ ’’برابر نہیں ہیں تم میں سے وہ لوگ جنہوں نے فتح سے قبل انفاق کیا اورقتال کیا‘‘. یہاں ’’انفاق‘‘ مال خرچ کر نے کے لیے اور ’’قتال‘‘ بذلِ نفس کے لیے آیا ہے .

یہی وجہ ہے کہ ہم نے تنظیم اسلامی میں شمولیت کے لیے جو عہد نامہ معین کیا ہے اس میں 
’’وَاُنْفِقَ مَالِیْ وَاَبْذُلَ نَفْسِیْ‘‘ کے الفاظ شامل کیے ہیں. اس عہد نامہ کے پہلے حصے میں تو کلمہ ٔشہادت اور استغفار ہے.دوسرے حصے میں جو عہد ہے وہ بھی تنظیم سے نہیں ہے‘ نہ مجھ سے کوئی معاہدہ ہے‘ بلکہ اللہ سے ایک عہد ہے‘ اس لیے کہ یہ بیع و شراء تو اللہ اور بندے کے درمیان ہے‘ ازروئے الفاظِ قرآنی : اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ (التوبۃ:۱۱۱’’اللہ نے خرید لیے ہیں اہل ایمان سے اُن کے مال بھی اور اُن کی جانیں بھی جنت کے عوض‘‘. چنانچہ تنظیم اسلامی کے ’’عہد نامۂ رفاقت‘‘ کا دوسرا حصہ یہ ہے : 

اِنِّیْ اُعَاھِدُ اللّٰہَ عَلٰی اَنْ اَھْجُرَ کُلَّ مَا یَکْرَھُہٗ وَاُجَاھِدَ فِیْ سَبِیْلِہٖ جُھْدَ اسْتِطَاعَتِیْ ‘ وَاُنْفِقَ مَالِیْ وَاَبْذُلَ نَفْسِیْ لِاِقَامَۃِ دِیْنِہٖ وَاِعْلَاءِ کَلِمَتِہٖ 

’’میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ ہر اُس چیز کو چھوڑ دوں گا جو اُسے ناپسند ہے‘ اور اپنی استطاعت کی حد تک اس کی راہ میں جہاد کروں گا‘ اور اپنا مال بھی خرچ کروں گا اور اپنی جان بھی کھپاؤں گا اُس کے دین کو قائم کرنے کے لیے اور اُس کے کلمہ کی سربلندی کے لیے .‘‘

اس کے بعد یہ الفاظ آتے ہیں: 

وَلِاَجْلِ ذٰلِکَ اُبَایِعُ ...
’’اس مقصد کی خاطر میں بیعت کر رہاہوں…‘‘

اس مقصد کے لیے تنظیم میں شمولیت ہو رہی ہے‘ ورنہ یہ عہد معاہدہ‘ یہ قول و قرار‘ یہ میثاق اور یہ بیع و شراء تو ہر بندۂ مؤمن کا‘ اگر وہ حقیقتاً مؤمن ہے‘ اللہ کے ساتھ ہونا چاہیے. اگر نہیں ہے تو یہ ہماری محرومی ہے.