آگے فرمایا: وَ مَا لَکُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ۚ ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے ‘تم ایمان پختہ کیوں نہیں رکھ رہے اللہ پر؟‘‘ اب نوٹ کیجیے کہ یہاں ایمان کون سا درکار ہے. یہ بات میں پرکار کی مثال سے آپ کو سمجھاتا ہوں کہ جیسے ایک پرکار کے دونوں بازو باہم جڑے ہوئے ہوتے ہیں اسی طرح آیت ۷ میں ایمان اور انفاق کے الفاظ جڑ کر ایک جگہ آئے ہیں. آگے دو دو آیتوں میں انہیں کھولا گیا ہے‘ جیسے پرکار کے بازو کھل جاتے ہیں‘ چنانچہ دو آیتیں ایمان اور دو آیتیں انفاق پر آئی ہیں .یہی پرکار سورۃ التغابن میں مزید کھلتی ہے جو سلسلۂ مسبحات کی آخری سورت ہے. وہاں یہی مضمون دس آیات میں آیا ہے.آیت ۸سے وہاں یہی دعوتِ ایمان شروع ہوئی ہے بایں الفاظ : فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہ ٖ وَ النُّوۡرِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلۡنَا ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۸﴾ یہاں ایک آیت میں دعوتِ ایمان ہے جبکہ وہاں سورۃ التغابن میں یہ دعوت تین آیات میں ہے. اس کے بعد یہ سوال کہ کون سا ایمان درکار ہے‘ اس کی وضاحت وہاں پانچ آیتوں میں کی گئی ہے. پہلی بات یہ کہ اس میں تسلیم و رضا کی کیفیت ہو: مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۱﴾ یہاں ان آیات کا ترجمہ اور وضاحت کیے بغیر صرف حوالے دیے جا رہے ہیں‘ اس لیے کہ ہمارے منتخب نصاب کے دروس میں سورۃ التغابن پر تفصیلی بحث ہو چکی ہے. تو پہلی بات یہ کہ تسلیم و رضا والا ایمان ہو .اس ایمان کا دوسرا پہلو ہے اطاعت. اس کے بارے میں فرمایا: وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۲﴾ اگر اطاعت ِکاملہ نہیں توایمان کہاں ہے! اللہ کو مانتے ہو اور اطاعت نہیں کرتے؟ رسول کو مانتے ہو اور اس کا حکم نہیں مانتے‘ اس کا اتباع نہیں کرتے؟ چہ معنی دارد؟ تیسری بات یہ کہ توکل صرف اُسی پر ہو: اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۳﴾. چوتھی بات یہ کہ دنیا میں جن سے بھی فطری‘ طبعی اور جبلی محبتیں ہیں‘ یوں محسوس کرو کہ ان محبتوں میں تمہارے لیے دشمنی مضمر ہے‘ یہ potential enemies ہیں. چنانچہ فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ وَ اَوۡلَادِکُمۡ عَدُوًّا لَّکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُمۡ ۚ (آیت ۱۴یہی محبتیں ہیں جو اَڑنگا لگاتی ہیں اور ان کی وجہ سے انسان اوندھے منہ گرتا ہے .یہی محبتیں ہیں جو اگر حد سے تجاوز کر جائیں تو انسان حرام میں منہ مارتا ہے‘ اللہ کے حقوق کو بھول جاتا ہے. ساری توانائیاں آل اور اولاد کے لیے کھپا دیتا ہے اور اللہ کے لیے تو اس کے پاس باقی کچھ رہتا ہی نہیں‘ کیا خرچ کرے گا ‘ کیا کھپائے گا؟ اپنے وقت ‘ اپنی صلاحیتوں اور اپنی قوتِ کار کی ساری پونجی تو صرف دنیا بنانے کے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر سے بہتر سہولتیں حاصل کرنے کے لیے صرف ہو رہی ہے. اگلی آیت میں دوبارہ فرمایا : اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ؕ (آیت ۱۵’’تمہارے اموال و اولاد تو (تمہارے حق میں) فتنہ ہیں‘‘. پانچ آیتوں میں اس ایمان حقیقی کے ثمرات بیان کرنے کے بعد پھر ایک آیت میں ان کو دوبارہ سمو یا گیا اور اس کے ساتھ ہی انفاق کا ذکر بھی آ گیا. یوں سمجھئے کہ وہ پرکار اب پوری طرح کھل رہی ہے. چنانچہ پرکار کا دوسرا سرا کیا ہے! فرمایا: 

فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا وَ اَنۡفِقُوۡا خَیۡرًا لِّاَنۡفُسِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۶﴾اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعِفۡہُ لَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ شَکُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾ 

اسی طرح (سورۃ الحدید میں)ایمان اور انفاق پر مشتمل ساتویں آیت کی پرکارجو یہاں بند تھی ‘اگلی چار آیتوں میں ذرا کھل گئی ہے. چنانچہ فرمایا : وَ مَا لَکُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ۚ تمہیں کیا ہو گیا ہے‘ تم کیوں نہیں ایمان رکھتے اللہ پر؟ وہ ایمان جو حقیقی ایمان ہے‘ اس پر تمہارا دل کیوں نہیں ٹھکتا؟ یہ زجر یا ملامت کا انداز ہے. آپ دیکھئے تین باتیں دہرائی گئیں: وَ الرَّسُوۡلُ یَدۡعُوۡکُمۡ لِتُؤۡمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ وَ قَدۡ اَخَذَ مِیۡثَاقَکُمۡ اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہو گی کہ بنفس نفیس اللہ کے رسول‘ؐ تمہیں دعوت دے رہے ہیں اور تم اس سے اعراض کر رہے ہو؟ایک طرف تویہی سب سے بڑی خوش نصیبی ہے کہ اللہ کے رسول بذاتِ خود تمہیں دعوتِ ایمان دے رہے ہیں‘ لیکن اگر اس وقت بھی کوئی محروم رہ گیا تو بتایئے کہ اس سے بڑا بدنصیب کون ہو گا؟ ظاہر بات ہے کہ مدینہ کے اندر منافق بھی موجود تھے جو محمد رسول اللہکی دعوت سے بھی نہ متاثر ہوئے‘ نہ فیض یاب ہوئے. جو شے بجلی اور حرارت کے لیے غیر موصل (bad conductor) ہو‘ آپ کتنے ہی جتن کر لیں اس میں سے نہ حرارت گزرے گی نہ برقی رو گزرے گی. تو یہ بدنصیبی کی انتہا ہے .یہ وہی انداز ہے جو بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضور نے فرمایا : … وَاَنَا بَیْنَ اَظْھُرِکُمْ ’’درانحالیکہ ابھی میں تمہارے مابین موجود ہوں (پھر بھی تمہارا یہ حال ہے!)‘‘دوسرے یہ کہ رسول کس بات کی دعوت دے رہے ہیں! لِتُؤۡمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ تمہارے اپنے ربّ پر ایمان کی دعوت دی جا رہی ہے‘ کسی غیر پر ایمان کی دعوت تو نہیں دی گئی. تمہیں تمہارے اپنے پالن ہار‘ پروردگار‘ تمہارے خالق‘ تمہارے رازق پر ایمان کی دعوت دی جا رہی ہے. تیسری بات یہ فرمائی کہ وَ قَدۡ اَخَذَ مِیۡثَاقَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸﴾ ’’اور وہ تم سے قول و قرار لے چکا ہے‘ اگر تم واقعتا مؤمن ہو.‘‘ 

ان دونوں آیتوں کے بارے میں‘ جیسا کہ میں اس سے قبل بیان کر چکا ہوں‘ اگر ہم خطاب کے الفاظ پر نگاہ جمائیں گے تو اس خطاب میں مسلم و غیر مسلم دونوں شمار کیے جاسکتے ہیں. 
اٰمِنُوْا ’’ایمان لاؤ‘‘کے مخاطبین کمزور اہل ایمان بھی ہو سکتے ہیں اور کافر و مشرک بھی ‘جو ایمان سے بالکل محروم تھے. لیکن سیاق و سباق معین کر رہا ہے کہ یہاں گفتگو مسلمانوں سے ہے‘ غیر مسلموں سے نہیں ہے. اسی طرح اس آیت میں بھی لفظی طور پر ’’میثاق‘‘ کے دو مفہوم مراد لیے جانے کا امکان موجود ہے. بالفرض اگر یہاں پر مخاطب کوئی غیر مسلم ہے‘ یا وہ شخص جو ابھی اپنے ایمان کا اعلان و اعتراف نہیں کر رہا‘ تو یہاں وَ قَدۡ اَخَذَ مِیۡثَاقَکُمۡ سے ’’میثاق الست‘‘ مراد ہو گا‘ یعنی اس دنیا میں آنے سے پہلے وہ تم سے میثاق لے چکا ‘ بایں الفاظ : اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ . (الاعراف:۱۷۲اب یہاںاِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸﴾ میں ایمان کا لفظ اپنے اصطلاحی مفہوم میں نہیں لیا جائے گا ‘ بلکہ ایمان کا لفظی معنی یعنی تصدیق مراد لیا جائے گا کہ اگر تم تسلیم کرو! اپنی فطرت کی گہرائیوں میں جھانکو تو تمہیں آثار نظر آ جائیں گے .ایک مرتبہ اے کے بروہی صاحب نے ملاقات میں مجھے کسی فلسفی کا ایک قول سنایا تھا. وہ فلسفی گویا خالق کی طرف سے یہ تعبیر کر رہا ہے: 

".You would not have searched for me unless you had possessed me in the very beginning"
یعنی اگر بالکل آغاز ہی میں تمہارا میرے ساتھ ایک تعلق قائم نہ ہوا ہوتا تو تم مجھے ہرگز تلاش نہ کرتے.

انسان میں فطری طو رپر اللہ تعالیٰ کی ایک طلب ہے‘ اس کی تلاش ہے. جیسے ایک دعا ہے ؎

مجھ کو ہے تیری جستجو‘ مجھ کو تری تلاش ہے
خالق مرے کہاں ہے تو مجھ کو تری تلاش ہے!

ہمارے ہائی سکول کے زمانے میں روزانہ صبح یہ دعا پڑھی جاتی تھی . واقعہ یہ ہے کہ تاریخ انسانی اس کا ثبوت دیتی ہے. کیسے کیسے لوگ جنگلوں اور صحراؤں کے اندر خاک چھانتے پھرتے رہے اور پہاڑوں میں جا کر تپسیائیں کرتے رہے. کس لیے؟ معلوم ہوا کہ فطرتِ انسانی میں کوئی طلب ہے‘ کوئی خواہش ہے‘ کوئی urge ہے. آپ کو بھوک لگتی ہے تو آپ کھانے کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں. تو ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو بھی کوئی طلب تھی جو انہیں کشاں کشاں لیے پھرتی رہی اور یہ طلب درحقیقت اس بات کا مکمل ثبوت ہے جو متذکرہ بالا قول میں بیان ہوئی ہے. عہد اَلَست کو قرآن مجید تو ایک عظیم الشان واقعہ کی حیثیت سے پیش کرتا ہے : اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ لیکن جو بھی شخص اپنی فطرت کی گہرائیوں کے اندر جھانکے گا اسے اس عہد ِاَلَست کے آثار نظر آئیں گے‘ چاہے وہ یاد نہ آئے. اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے ربّ سے وہ عہد کیا تھا. اب ظاہر بات ہے کہ ارواح میں فرق و تفاوت تو ہے. وہ روح جو اللہ نے انہیں عطا کی تھی اس کے اندر وہ یادداشت برقرار رہی ہو گی. لیکن بہرحال اس وعدے کی یاد اگرچہ برقرار نہ رہی ہو‘ لیکن اس کے آثار اور اس کے اثرات فطرت انسانی میں موجود ہیں. وَ قَدۡ اَخَذَ مِیۡثَاقَکُمۡکے الفاظ میں اگر لفظی طور پر یہ امکان ہے تو اس کی وضاحت بھی میں نے کر دی‘ لیکن یہاں حقیقتاً وہ مراد نہیں ہے. یہاں اصل میں خطاب ان مسلمانوں سے ہے جو ضعیف الایمان ہیں. یہی وجہ ہے کہ میں نے عرض کیا تھا کہ آج کے مسلمانوں کے لیے یہ سورتیں قرآن مجید کا سب سے زیادہ قیمتی حصہ ہیں. اس لیے کہ نزولِ قرآن کے وقت کا تو ضعیف ِایمان بھی ہمارے آج کے ایمان کے مقابلے میں بہت بلند و بالا‘ بہت پختہ اور مستحکم تھا. آج ہماراجو حال ہے اس کے پیش نظر ہمیں تو بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ان آیات کو حرزِ جان بنا لیں. 

وَ قَدۡ اَخَذَ مِیۡثَاقَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸﴾ ’’وہ تم سے قول و قرار لے چکا اگر تم مؤمن ہو!‘‘ یہاں پر اصطلاحی ترجمہ کیجیے کہ اگر تم مؤمن ہو‘ تم ایمان کے دعویدار ہو پھر تو تمہارا عہد و میثاق اور قول و قرار ہو چکا. یہاں سورۃ التوبۃ کی آیت ۱۱۱ ذہن میں لایئے : اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ ’’اللہ تو خرید چکا ہے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور مال جنت کے عوض‘‘. اب یہ جان و مال ان کے ہیں کہاں؟ اب تو گویا ان کے پاس محض ایک امانت کے طور پر رکھے ہوئے ہیں کہ جیسے ہی مطالبہ ہو حاضر کر دیے جائیں. یہ ہے درحقیقت وہ قول و قرار‘ کہ اگر تم مؤمن ہو پھر تو تم اپنی جان اور مال فروخت کر چکے‘ اب وہ تمہاری ملکیت ہے ہی نہیں. اوّلاً تو اصولی طور پر تم اس کے مالک نہیں‘پھر یہ کہ اس قول و قرار سے اس کی مزید توثیق ہو گئی .اب یہ تمہارے پاس امانت ہے. بڑا پیارا شعر ہے: ؎ 

وبالِ دوش ہے سر‘ جسم ناتواں پہ مگر
لگا رکھا ہے ترے خنجر و سناں کے لیے!

گویا life is a liability واقعہ یہ ہے کہ بسا اوقات انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ زندگی ایک بوجھ ہے‘ لیکن بندۂ مؤمن یہ سمجھتا ہے کہ مجھے صرف اللہ اور اس کے دین کے لیے یہ بوجھ اٹھائے رکھنا ہے. اس زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے بھی جو حق اسے میں دے رہا ہوں وہ صرف حضور کی اس ہدایت کی بنا پر ہے کہ : اِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِاَھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا (۱’’یقینا تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے‘‘.مؤمن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی زندگی کا جو اصل مقصد ہے اور جو اُس کی اصل منشا ہے جس کے لیے وہ اسے preserve کر رہا ہے‘ وہ وقت آئے کہ وہ یہ دے کر فارغ ہو جائے‘ جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہوا: فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ (آیت ۲۳’’ان میں وہ بھی ہیں جو اپنی نذر پیش کر چکے (شہید ہو چکے) اور باقی جو ہیں وہ منتظر ہیں (کہ کب موقع آئے اورہم اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں دے کر سبکدوش ہو جائیں).‘‘