میدانِ حشر میں ایک ایسا مرحلہ بھی ہے جسے ہماری زبان میں عام طور پر پل صراط کہا گیا ہے. یہ انتہائی گھپ اندھیرے میں جہنم کے اوپر بنا ہوا ایک راستہ ہے. سورۂ مریم میں اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے : وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا ﴿ۚ۷۱﴾ ’’اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا اس (جہنم) پر گزر نہ ہو‘ یہ طے شدہ بات ہے جو تمہارے ربّ کے ذمہ ہے‘‘.تو یہ پل صراط ہے جس پر سے ہر ایک کو گزرنا ہے. یہ گھپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا انتہائی تنگ راستہ ہے جسے ہم اپنی استعاراتی زبان میں کہتے ہیں کہ یہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز راستہ ہے .اب جن کے پاس تو وہ نورِ ایمان اور نورِ اعمالِ صالحہ ہو گاوہ تو اس نور کی روشنی میں اس راستے کو دیکھ کراس مرحلے سے گزر کر جنت میں داخل ہو جائیں گے اور دوسرے جو اِس نور سے محروم ہوں گے وہ ٹھوکریں کھا کر جہنم کے اندر گریں گے. یہ ہے درحقیقت وہ چھلنی کہ جو میدانِ حشر میں کسی ایک مرحلے پر لگے گی. 

تو فرمایا : یَوۡمَ تَرَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ یہاں پر یہ بات ذرا وضاحت طلب ہے کہ لفظ ’’یَوْمَ‘‘ یہاں منصوب کیوں ہے. اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اس سے ماقبل آیت کے آخر میں ’’اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ‘‘ کا ذکر ہوا ہے ‘یہ اس کا ظرف ہے کہ وہ اجر کریم کب ظاہر ہو گا : یَوۡمَ تَرَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ ’’(یہ اجر کریم ظاہر ہو گا) اُس دن کہ جب تو دیکھے گا مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو کہ ان کا نوران کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا‘‘. تو اس رائے کے مطابق یہ ظرفیت کا نصب ہے. اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ ’’یَوۡمَ‘‘ سے پہلے ’’اُذْکُرْ‘‘محذوف ہے کہ تصور کرو اُس دن کا جس دن مؤمنوں پر یہ عنایت خاص ہو گی. اس رائے کے مطابق یہاں سے پھر استیناف ہو جائے گا‘ یعنی یہاں سے ایک علیحدہ کلام شروع ہو گا. میں اسی دوسری رائے کو زیادہ قوی سمجھتا ہوں‘ لیکن دونوں آراء ممکن ہیں. تو فرمایا جا رہا ہے کہ ذرا تصور کرو اُس دن کا جس دن تم دیکھو گے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو کہ ان کا نور دوڑتا ہو گا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ ’’ان کے سامنے‘‘. ان کے آگے آگے. یہ میرے نزدیک ایمان کا نور ہے جو قلب میں ہے‘ اس کی جو بھی روشنی پڑے گی وہ سامنے کی طرف ہو گی. وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ ’’اور ان کے دائیں طرف‘‘. سورۃ التحریم کی آیت ۸ میں بھی یہی الفاظ ہیں : یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ . سورۃ التحریم میں تو ان کی دعاکے الفاظ نقل ہوئے ہیں. جن کا نور تھوڑا ہو گا‘ وہ پھر دعا کریں گے : رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۸﴾ کہ پروردگار! ہماری ان کوتاہیوں کو جن کی وجہ سے ہمارا یہ نور مدھم ہے‘ تو اپنے فضل و کرم سے معاف فرما کر ہمارے اس نور کا بھی اتمام فرما دے ! گویا وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے پروردگار! جیسے تو نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہماکو نورِ کامل عطا فرمایا ہے ایسے ہی اپنے فضل و کرم سے ہمارے نور کا بھی اتمام فرما دے. اس لیے کہ حدیث ِنبویؐ کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نور کے مختلف درجات ہوں گے. یہ گویا اس کا quantitative element ہے. ظاہر بات ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایمان میں اور ایک عام آدمی کے ایمان میں زمین و آسمان کا فرق ہو گا. اور ہم سے کسی کو اگر کوئی رتی ماشہ ایمان نصیب ہو جائے تو اس کی کیانسبت تناسب ہے حضور اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان کے ساتھ! اس حوالے سے حضور کے الفاظ ہیں کہ کچھ لوگوں کو تو جو نور ملے گا وہ اتنا ہو گا کہ اس کی روشنی مدینے سے صنعا تک پہنچے گی. (یہ یمن کا ایک شہر ہے.) یعنی اس کے اثرات اس قدر زیادہ ہوں گے. اور فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کو بس اتنا نور ملے گا کہ وہ صرف ان کے قدموں کے سامنے روشنی کر رہا ہو گا. لیکن یہاں نوٹ کر لیجیے کہ اُس وقت وہ نور بھی بہت غنیمت ہو گا. اس کا کسی قدر اندازہ اس مثال سے لگایاجا سکتا ہے کہ کوئی شخص گھپ اندھیری رات میں سفر کر رہا ہو اور وہ پگڈنڈی بھی واضح نہ ہو جس پر جانا ہے تو اس موقع پر اگر اس کو کوئی معمولی ٹارچ بھی مل جائے تو وہ اس کے لیے بڑی قیمتی چیز ہو گی‘ اور اگر کسی کے پاس لالٹین ہو تو وہ بھی ایسے موقع پر بڑا خوش نصیب ہو گا. جیسے اقبال نے کہا ہے ؎

اندھیری شب ہے ‘ جدا اپنے قافلے سے ہے تو
ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل!

لیکن اگر کسی کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما والا نور میسر آ جائے تو اس کے کیا کہنے. یہ فرق و تفاوت بہرحال ہو گا. حدیث ِنبویؐ میں یہ فرق و تفاوت اس حوالے سے بھی بیان ہوا ہے کہ چھوٹے اور کم تر درجے کا جنتی اپنے سے اوپر والے جنتی کو ایسے دیکھے گا جیسے تم زمین پر بیٹھ کر آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہو. اس قدر فرق و تفاوت ہو گا!
آگے فرمایا: 
بُشۡرٰىکُمُ الۡیَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ’’(ان سے کہا جائے گا کہ) آج بشارت ہے تمہارے لیے ان باغات کی جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘‘.یعنی آج کا دن تمہارے لیے بشارت کا دن ہے. تمہاری کلفتوں اور مشقتوں کا دور اب ختم ہوا .تم امتحان کے مختلف مرحلوں سے گزر آئے ہو اور اب تمہاری سختیاں اور تمہاری ابتلاء و آزمائش ختم ہوئی. آج سے تمہارے لیے بشارت ہے ان باغات کی جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی. میں عام طور پر ’’تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ‘‘ کا ترجمہ ’’دا من میں ندیاں بہنا‘‘ زیادہ پسند کرتا ہوں‘اس لیے کہ باغ کا جو فطری تصور ہوتا ہے وہ یہی ہے .ایک باغ تو لوگوں کا بنایا ہوا ہوتا ہے جو وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بناتے ہیں‘ جس کے مختلف درجات (levels) ہوتے ہیں‘ جیسے کہ شالا مار باغ ہے ‘جبکہ ایک باغ فطری ہوتا ہے. جیسے ایک وادی ہے ‘ اس کے نشیب میں ایک ندی بہہ رہی ہے اور ندی کے دونوں اطراف میں ذرا بلندی پر درخت لگائے گئے ہیں. اب ظاہر ہے کہ پانی کے اثرات زمین کے دونوں طرف سرایت کر رہے ہوں گے جو اُن درختوں کے لیے زیادہ مفید ہیں.لہذا تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ سے مراد یہ ہے کہ باغات کے دامن میں ندیاں بہہ رہی ہوں گی. علامہ اقبال نے اپنی نظم’’ایک آرزو‘‘ میں اس کا ایک خوبصورت نقشہ کھینچا ہے ؏ ’’پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو!‘‘ بہرحال یہ کہنا کہ ’’نیچے ندی بہہ رہی ہے‘‘ یا یہ کہنا کہ ’’دامن میں ندی بہہ رہی ہے‘‘ اس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا.

مزید فرمایا: خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ’’اس میں تمہیں رہنا ہے ہمیشہ ہمیش‘‘ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۚ۱۲﴾ ’’یہی ہے اصل ‘بڑی کامیابی‘‘. یہاں ’ذٰلکَ‘ کے بعد ھُوَ بھی آیا ہے اور یہ حصر کا اسلوب ہے کہ ’’یہی ہے اصل بڑی کامیابی‘‘. اس سے دراصل اس حقیقت کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے کہ اگرچہ دنیا میں بھی انسان چاہتا ہے کہ اپنی محنت کے کوئی نتائج دیکھ لے‘ لیکن یہ اصل کامیابی نہیں ہے. جیسے سورۃ الصف میں فرمایا گیا : وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ (آیت ۱۳کہ ایک اوروعدہ بھی تم سے کیا جا رہا ہے جو تمہیں بہت پسند ہے‘ اور وہ ہے اللہ کی طرف سے مدد اور فوری (دُنیوی) فتح. جبکہ اللہ نے تو یہ دنیا بنائی ہے صرف آزمائش کے لیے : خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (المُلک:۲’’اُس نے تخلیق کیا ہے موت اور زندگی کو‘تاکہ وہ تمہیں (اس کے ذریعے) آزمائے کہ کون ہے تم میں سے عمل کے اعتبار سے زیادہ بہتر‘‘. تو جو اِس آزمائش میں کامیاب ہو گیا بس وہی ہے اصل میں کامیاب‘ چاہے دنیا میں ایسے شخص کی سعی و جہد کا کوئی نتیجہ برآمد ہوا ہو یانہ ہوا ہو. یہ دُنیوی کامیابی اس اعتبار سے بالکل غیر اہم ہے. اللہ تعالیٰ کے کئی جلیل القدر رسول دنیا سے یوں ہی چلے گئے کہ انہیں کوئی پیروکار نہیں مل سکے. حضرت نوح علیہ السلام کو ساڑھے نو سو (۹۵۰) برس کی تبلیغ کے نتیجے میں صرف ستر یا بہتر افرادملے ‘بلکہ ایک رائے تو یہ بھی ہے کہ اتنے بھی نہیں ملے. سوائے اُن کے تین بیٹوں اور ان کے گھر والوں کے کوئی ان کے ساتھ نہیں تھا.قرآن کے الفاظ ہیں : وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴿۴۰﴾ (ھود) ’’اور ایمان نہیں لائے اس کے ساتھ مگر تھوڑے ہی لوگ‘‘. ساڑھے نو سو سال کا عرصہ بہت بڑا عرصہ ہے. لیکن حقیقت یہ ہے کہ ناکامی کااس کوچے میں گزر ہی نہیں. جو آپؑ کا فرض تھا وہ انہوں نے بطریق احسن ادا کیا اور حجت تمام کر دی. 

یہ نفسیاتی اعتبار سے بہت اہم مسئلہ ہے. خاص طور پر ہروہ شخص جو دین کی کسی خدمت کا بیڑا اٹھائے اور اس کے لیے کمر کس لے اُس پر یہ بات پوری طرح واضح ہونی چاہیے کہ اس کا نصب العین سوائے آخرت کی فلاح اور اللہ کی رضا کے کوئی نہ ہو .کوئی اور شے اس کی نظر میں نصب العین کا درجہ اختیار نہ کر لے . اصل شے اپنے فرض کی ادائیگی ہے اور یہی اصل کامیابی ہے. چنانچہ سورۃ الصف میں فرمایا: 
تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ یعنی اگر تم یہ دو شرائط پوری کر لو کہ اللہ اور رسول ( ) پر ایمان لے آؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو تو یہ چیز تمہارے لیے خیر ہے اگر تم جانو.اوروہ خیر کیا ہے: یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ وَ یُدۡخِلۡکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۙ۱۲﴾ ’’وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی اور (تمہارے لیے) پاکیزہ مکانات ہوں گے رہائشی باغات میں.یہی ہے بڑی کامیابی‘‘. آگے وہی بات کہی جا رہی ہے کہ وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳﴾ ’’اور وہ دوسری چیز بھی (تمہیں عطا کرے گا) جو تمہیں بہت پسند ہے‘ اللہ کی طرف سے مدد اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح. اور(اے نبی !) اہل ایمان کو خوشخبری دے دیجیے!‘‘ اب ظاہر بات ہے کہ یہ بات تو کہی جا رہی ہے سن ۶ھ کے آس پاس. اس سے پہلے کتنے ہی صحابہؓ ہیں جو جامِ شہادت نوش کر چکے اور ابھی تو وہ نصرتِ خداوندی قریب بھی نہیں آئی تھی. کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو مکہ میں ہی شہید ہو گئے تھے جو اسلام کی مغلوبیت کا دور ہے. یوں کہیے کہ اسلام ابھی اپنی اجنبیت کے دور میں تھا. تو ذرا سوچئے کہ جو مکہ میں ہی شہید ہو گئے‘ کیا وہ ناکام ہیں؟ (معاذ اللہ ‘ثم معاذ اللہ!) لہذا یہ بات ذہن میں بالکل واضح رہنی چاہیے . ورنہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ آدمی جب دیکھتا ہے کہ اس دنیا میں میری کوشش بارآور نہیں ہو رہی اور لوگوں کا رجوع میری طرف نہیں ہو رہا‘ لوگ میرا ساتھ نہیں دے رہے تو وہ by hook or by crook کے مصداق کوئی الٹا سیدھا طریقہ آزماتا ہے اور کوئی مختصر اور آسان راستہ (شارٹ کٹ) اختیار کر لیتا ہے. یہ صرف اسی صورت میں ہوتا ہے اگر ذہن میں یہ خناس پیدا ہو جائے کہ اصل کامیابی تو یہاں کی کامیابی ہے. جبکہ یہ بات ہرگز نہیں ہے ‘ بلکہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے. لہذا فرمایا : ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۚ۱۲﴾ ’’یہی ہے اصل بڑی کامیابی.‘‘