آگے بڑھنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نفاق کی حقیقت اور اس کے مراحل و مدارج (stages) کو سمجھ لیا جائے. نوٹ کیجیے کہ لفظ ’ نِفَاق‘ اور ’ اِنفاق‘ کا مادہ ایک ہی ہے‘ یعنی ’’ن‘ ف‘ ق‘‘. نَفَقَ‘ یَنْفُقُ سے اِفعال کے وزن پر لفظ ’اِنفاق‘ بنا ہے جس کے معنی ہیں ختم ہوجانا‘ خرچ ہوجانا.جیسے کہا جاتا ہے: نَفَقَ الْفَرَسُ ’’گھوڑا مر گیا‘‘یا ’’گھوڑا کام آ گیا‘‘. اور نَفَقَتِ الدَّرَاھِمُ ’’پیسے ختم ہو گئے!‘‘ یہاں اس انفاق کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے ‘ بایں الفاظ : اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ اور اسی مادے سے بابِ مفاعلہ میں ’’منافقت‘‘ بنا ہے. ’’نَفَق‘‘ سے مراد ہے زیرزمین راستہ یا سرنگ جس کے دو منہ ہوتے ہیں. پچھلے زمانے میں بادشاہ عام طور پر ایسے فوجی قلعے بنواتے تھے کہ ان میں محل بھی ہوتے تھے اور شکست کی صورت میں اپنی جان بچانے کے لیے قلعے میں ایسی خفیہ سرنگیں بنائی جاتی تھیں جو دُور کسی جنگل میں جا کر نکلتی تھیں‘ تاکہ دشمن اگر صدر دروازے سے داخل ہو ہی جائے تو وہ اس سرنگ کے ذریعے سے گھوڑے دوڑاتے ہوئے فرار ہو سکیں. لہذا بچاؤ کے لیے یہ سرنگیں بنائی جاتی تھیں. اسی طرح ’’گوہ‘‘ جو ایک صحرائی جانور ہے ‘اس میں اللہ نے اتنی عقل رکھی ہے کہ وہ اپنے لیے زیر زمین جو بھٹ یا بل بناتا ہے اس کے دو منہ رکھتا ہے‘ تاکہ اگر ایک راستے سے شکاری کتے داخل ہوں تو وہ دوسرے راستے سے نکل کر اپنی جان بچا سکے. اس لیے کہ صحرائی لوگ اس کا شکار کر کے اس کا گوشت کھاتے تھے. گوہ کے بل کو نَافِقَاء کہتے ہیں. اسی’’نفق‘‘ سے لفظ ’’منافقت‘‘ بنا ہے. تو منافقت کی اصل حقیقت یہی ہے کہ اپنے آپ کو بچا کر رکھنا. ایک تو صادق الایمان ہوتے ہیں جن کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ کھپا دینے میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں. جیسے اقبال نے کہا : ؎

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں!

لیکن منافقین کا رویہ اس کے برعکس ہوتا ہے کہ بچ بچ کر چلو‘ جان اور مال کو بھی بچاؤ اورمسلمانوں کے ساتھ بھی چلو. بظاہر ایمان لے آنا ان کی مجبوری بن جاتا ہے‘ کیونکہ اگر سارا قبیلہ ایمان لے آیا ہے تو ان کا بھی ایمان لے آنا معاشرتی دباؤ کی بنا پر لازمی ہو جاتا ہے ‘ ورنہ تو انہیں اپنے قبیلے سے کٹنا پڑتا ہے .تو وہ مسلمانوں میں تو شامل ہوجاتے ہیں مگر اپنے آپ کو بچا بچا کر چلتے ہیں. تو یہ اپنے آپ کو بچانا دراصل نفاق کی بنیاد ہے. 

اب جب اللہ کی راہ میں مال و جان کے ساتھ جہاد کا حکم ہوتا ہے تو مؤمنین صادقین کی روش یہ ہوتی ہے کہ وہ لبیک کہتے ہوئے حاضر ہو جاتے ہیں‘ لیکن منافقین اس سے گریز کی راہ اختیار کرتے ہیں اور جھوٹے بہانے بناتے ہیں . یہاں نوٹ کیجیے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جنہوں نے حیلے بہانے سے اپنے آپ کو اس کٹھن صورت حال سے بچا تو لیا ہو‘ لیکن بعد میں اپنی غلطی اور کوتاہی کا اعتراف کرتے ہوئے حضور کے سامنے معذرت پیش کی ہو‘ تواس کو نفاق نہیں کہیں گے ‘بلکہ یہ صرف ضعف ِایمان ہے. لیکن جب ان بہانوں میں جھوٹ کا عنصر بھی شامل ہو گیا‘ جھوٹے بہانے بنانے شروع کر دیے تو یہ نفاق کی پہلی سٹیج ہے. پھر ایک عرصہ گزرنے کے بعد جب انسان سوچتا ہے کہ اس کا تو اعتبار ہی ختم ہو گیا ہے تو اب وہ جھوٹی قسمیں کھاتا ہے اور یہ نفاق کا دوسرا درجہ ہے. اور تیسرا درجہ وہ ہے جب مؤمنین صادقین سے کد ہو جاتی ہے‘ ان سے بغض ہو جاتا ہے کہ یہ تو پاگل اور جنونی لوگ ہیں جو نہ دائیں دیکھتے ہیں‘ نہ بائیں دیکھتے ہیں‘ نہ انہیں آگے کی فکر ہے ‘نہ پیچھے کی فکر ہے‘ کوئی مصلحتیں دیکھتے ہی نہیں. اب ان کا قول یہ ہوتا ہے: 
اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ (البقرۃ:۱۳’’کیا ہم اس طرح ایمان لے آئیں جیسے یہ بے وقوف ایمان لائے ہیں؟‘‘یہ تو جنونی ہیں‘ یہ fanatics ہیں. تو جب مؤمنین صادقین سے دشمنی ہو گئی تو یہ نفاق کی تیسری سٹیج ہے. یہ نفاق دراصل انسان کی باطنی کیفیت ہے جو مختلف مراحل سے گزر کر انتہائی سٹیج کو پہنچتی ہے. یہاں اس کو بہت عمدگی کے ساتھ واضح کیا گیا ہے.