اس اعتبار سے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عام معنی میں گناہگار اور اس قسم کے غیر شعوری منافق میں بس تعبیر کا فرق ہے. گناہگار بھی تو یہی ہوتا ہے جو جانتا ہے کہ یہ شے اللہ نے حرام کی ہے‘ پھر بھی اس کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے. تو اس وقت وہ بھی ایمان سے تہی ہوتا ہے!اس اعتبار سے جان لینا چاہیے کہ گناہگار اور ایسے منافق میں حقیقت کے اعتبار سے باریک سا پردہ ہے. یہ بات میں نے اس لیے بیان کی ہے کہ اس آیت میں ایک خاص اور اہم نکتہ ہے جو اِس کے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتا.
اب آگے چلیے! جب اہل ایمان آگے نکل جائیں گے تو یہ منافق مرد اور عورتیں ان سے کہیں گے: انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ ۚ کہ ذرا ہمیں مہلت دو‘ ہمارا انتظار کرو‘ تاکہ ہم تمہارے نور سے استفادہ کر لیں‘ کچھ اقتباس کر لیں. ہم بھی اس سے فائدہ اٹھا کر پل صراط پر سے گزر جائیں. قِیۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَکُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا ؕ ’’کہا جائے گا کہ اپنے پیچھے کی طرف لوٹ جاؤ اور نور تلاش کرو‘‘.یعنی اگر تمہارے لیے ممکن ہے تو پیچھے دنیا کی طرف لوٹ جاؤ اور نور تلاش کر کے لے آؤ ! اس لیے کہ یہ نور یہاں نہیں دیا گیا ‘بلکہ یہ دنیا کی زندگی میں کما کر ساتھ لایا گیا ہے. دنیا میں ایمان کا بھی کسب کرنا ہوتا ہے اور اعمالِ صالحہ تو ہیں ہی سراسر کسب. تو اگر تمہارے لیے بھی ممکن ہو تو لوٹ جاؤ پیچھے کی طرف اور یہ نور تلاش کرنے کی کوشش کرو.