اب ذرا چشم تصور سے دیکھئے کہ اہل ایمان آگے نکل گئے‘ منافقین اِدھر رہ گئے اور درمیان میں فصیل حائل ہوگئی . یُنَادُوۡنَہُمۡ اَلَمۡ نَکُنۡ مَّعَکُمۡ ؕ ’’وہ انہیں پکار کر کہیں گے :کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟‘‘ یہ اس امرِ واقعہ کی تعبیر ہے کہ دنیا میں منافق اور مؤمن ‘ گناہگار اور متقی سب گڈمڈہیں‘ سب قانونی طور پر مسلمان ہیں‘ بلکہ مسلمان معاشرے میں منافق اور مؤمن کے اور متقی اور فاسق کے قانونی اور دستوری حقوق بالکل برابر ہیں. دنیا میں ان کے مابین معاشرتی‘ سیاسی اور دستوری حقوق میں کوئی فرق نہیں ہے. اس لیے کہ قانونی تقسیم تو بہرحال ایک ہی ہے‘ سب مسلمان شمار ہوتے ہیں. اس ضمن میں امامِ اعظم امام ابوحنیفہؒ کا موقف ہے کہ: اَلْاِیْمَانُ قَوْلٌ لَا یَزِیْدُ وَلَا یَنْقُصُ یعنی ایمان تو زبانی اقرار کا نام ہے ‘ جو نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے. ان کی مراد حقیقی ایمان نہیں بلکہ قانونی ایمان ہے‘ جوانسان کو ایک قانونی و دستوری status دیتاہے‘ اور وہ گھٹتا یا بڑھتا نہیں ہے‘ بلکہ جامد ہے. جبکہ حقیقی ایمان کا فیصلہ اللہ کے حضور جا کر ہو گا اور اس کا نور میدانِ حشر میں ظاہر ہو گا. کوئی متقی ہے تو اللہ کے ہاں اجر پائے گا‘ فاسق ہے تو وہاں سزا بھگتے گا. یہاں تو مسلمان کی حیثیت سے سب برابر ہیں. جیسے کہا جاتا ہے ’’اَلْمُسْلِمُ کُفْوٌ لِکُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ یعنی تمام مسلمان آپس میں مرتبہ اور سٹیٹس کے اعتبار سے بالکل ہم پلہ ہیں‘ قانونی اور دستوری حیثیت سب کی برابر ہے.

میدانِ حشر میں جب چھلنی لگے گی اور حقیقی مؤمن اور محض نام کے مسلمانوں کے مابین تفریق ہو جائے گی تو یہ لوگ حقیقی اہل ایمان کو پکار پکار کر کہیں گے کہ کیا دنیا میں ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ آج تمہارے اور ہمارے مابین اتنا فرق و تفاوت کیوں ہے؟ کیا ہم بھی مسجد نبویؐ میں تمہارے ساتھ نمازیں ادا نہیں کرتے تھے؟ ظاہر ہے کہ یہ لوگ اہل ایمان میں گڈمڈ تھے.یہ تو جب اُحد کا موقع آیا تو معلوم ہوا کہ کون کیا ہے‘ جب رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی تین سو آدمیوں کو لے کر میدانِ جنگ سے واپس آ گیا. معلوم ہوا کہ جب تک آزمائش نہ ہو دنیا میں اصل اہل ایمان اور جھوٹ موٹ کے مسلمان کے مابین تمیز نہیں ہو سکتی. ورنہ تو دنیا میں وہ برابر تھے.یہاں تک کہ حضور نے عبد اللہ بن اُبی کی نماز جنازہ ادا کی ہے اور اس کی تدفین کے لیے اپنا کرتہ عنایت کیا ہے. اس لیے کہ اس کے بیٹے عبد اللہ ؓ بن عبد اللہ بن اُبی مؤمن صادق تھے‘ انہوں نے آ کر درخواست کی کہ حضور! میرے باپ کا انتقال ہو گیا ہے‘ آپ اپنا کرتہ عنایت فرما دیں تو میں اسے اس کا کفن دے دوں. 
حضور نے کرتہ عنایت فرما دیا. حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ حضورؐ ! آپ اس منافق کے لیے کرتہ دے رہے ہیں ! آپؐ نے فرمایا: ’’عمر! میرا کرتہ اسے خدا کے عذاب سے بچا نہیں سکے گا‘‘. رسول اللہ کی مروّت اور شرافت سے بعید تھا کہ آپؐ ایک مؤمن صادق کی درخواست ردکر دیتے. گویا مرنے کے بعد بھی قبر میں اُترنے تک اسے ’’مسلم‘‘ کا لیگل سٹیٹس حاصل رہا.