اب اس نفاق کا انجام کیا ہے ! فرمایا: فَالۡیَوۡمَ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡکُمۡ فِدۡیَۃٌ وَّ لَا مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ ’’تو آج کے دن نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا نہ کافروں سے‘‘. یہ بہت پیارا انداز ہے. یہاں منافقوں کو کافروں کے ساتھ بریکٹ کر دیا گیا ہے. اصل میں یہ جواب ہے ان کے اس قول کا کہ: اَلَمۡ نَکُنۡ مَّعَکُمۡ ؕ ’’کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟‘‘ تو فرمایا جا رہا ہے کہ دنیا میں تم یقینااہل ایمان کے ساتھ تھے‘ چونکہ تم قانونی طور پر مسلمان تھے لہذا ان کے ساتھ شامل رہے‘ یہاں تک کہ حضور کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے. لیکن یہاں تم انجام کے اعتبار سے کفار کے ساتھ شامل ہو.دراصل یہی نفاق ہے کہ قانوناً تو ایسا شخص دنیا کی زندگی میں مسلمان سمجھاجاتا ہے‘ جبکہ حقیقتاً ‘ عاقبت اور انجامِ کار کے اعتبار سے وہ کفار کے ساتھ ہے. آگے فرمایا جا رہا ہے : مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ ؕ ’’تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے‘‘.

نوٹ کیجیے کہ قرآن مجید میں طنز کا پہلو بھی ہے. آوٰی‘ یُؤْوِیْ‘ اِیْوَاءً کا مطلب ہے ’’کسی کو پناہ دینا‘‘. اس سے لفظ ’’مَاْوٰی‘‘ بنا ہے جس سے مراد ہے پناہ گاہ‘ جس کی طرف انسان کسی خطرے سے بچنے کے لیے دوڑتا اور لپکتا ہے. طوفان سے بچنے کے لیے اگر کسی نے پہاڑ کے اندر کوئی جگہ تلاش کر لی تو وہ اس کے لیے ’’مأویٰ‘‘ ہے .تو فرمایا : مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ ؕ کہ اب تمہاری پناہ گاہ یہی آگ ہے . ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ ’’یہی تمہاری خبر گیری کرنے والی ہے‘‘. یہاں ’مولیٰ‘ کا لفظ بھی طنزاً استعمال ہوا ہے.مولیٰ کا مطلب ہے ہمدرد‘ غم گسار‘ مددگار‘ دوست‘ پشت پناہ‘ ساتھی وغیرہ. لہذا فرمایا : ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ کہ یہی آگ تمہاری ہمدرداور غمگسارہے‘ دکھ درد کہنا ہے تواس سے کہو‘ نالہ و شیون ہے تو اسی سے کرو. مزید فرمایا: وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۱۵﴾ ’’اور یہ بہت ہی بری ہے لوٹنے کی جگہ‘‘. ’’مَصِیْر‘‘ کا مطلب ہے جانے کی جگہ ‘وہ جگہ جہاں انسان بانجامِ کار پہنچا دیا جائے.