تاخیر و تعویق کا نتیجہ : قساوتِ قلبی

نوٹ کیجیے کہ ایک تو صرف شدتِ تاثر کے لیے قساوتِ قلبی کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے. جیسا کہ روایات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بھی مذکور ہے.جب آپؓ کے پاس اہل یمامہ کا ایک وفد آیا اور ان کے سامنے قرآن پڑھا گیا تو ان لوگوں کی آنکھوں میں آنسوآ گئے تو اس موقع پر خلیفۃ المسلمین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ھٰکَذَا کُنَّا حَتّٰی قَسَتِ الْقُلُوْبُ‘‘ کہ یہی حال کبھی ہمارا بھی ہوتا تھا ‘ یہاں تک کہ ہمارے دل سخت ہو گئے. لیکن یہ صرف شدتِ تاثر ہے. جیسے حضور فرمایا کرتے تھے: اِنَّہٗ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ (صحیح مسلم) ’’بے شک میرے دل پر بھی کبھی کبھی کوئی حجاب سا طاری ہو جاتا ہے‘‘.اس سے کہیں آپ لفظی اشتراک کی وجہ سے دھوکہ نہ کھاجائیں کہ ہمارے دلوں کے حجاب اور حضور کے دل کے حجاب کی نوعیت کوئی ایک جیسی ہو سکتی ہے.(نعوذ باللہ!) ؏ ’’چہ نسبت خاک را با عالم پاک!‘‘ 

اسی قساوتِ قلبی کے بارے میں سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے : 

ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالۡحِجَارَۃِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَۃً ؕ وَ اِنَّ مِنَ الۡحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنۡہُ الۡاَنۡہٰرُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخۡرُجُ مِنۡہُ الۡمَآءُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَہۡبِطُ مِنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕوَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۷۴﴾ 
’’پھر (ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی) تمہارے دل سخت ہو گئے‘ پتھروں کی طرح سخت‘ بلکہ سختی میں ان سے بھی کچھ بڑھے ہوئے ‘کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں‘ اور ان میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پھٹتا ہے تو اس میں سے پانی نکلتا ہے‘ اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے. اور اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے.‘‘

اس آیت کا حوالہ قساوتِ قلوب کے ضمن میں بہت ضروری ہے. اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان کا دل سخت ہوتا ہے تو پھر کسی چٹان اور پتھر کی سختی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی .اور یہ تو ہمارے عام مشاہدے کی بات ہے کہ کوئی 
بھیڑیا بھی ایسی درندگی نہیں کر سکتا جو انسان انسان کے ساتھ کرتا ہے. کوئی درندہ جب بھوکا ہو تو وہ ضرور اپنی درندگی کا مظاہرہ کرتا ہے‘ لیکن آج انسان قومیت پرستی کے بھوت میں اندھا ہو کر درندگی کا جو مظاہرہ کر رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے. آج بوسنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ‘تقسیم ہند کے وقت مشرقی پنجاب میں جو کچھ ہوا تھا‘ کبھی مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا تھا اسے کون بھلا سکتا ہے! افسوس کہ مسلمانوں کے ہاتھوں بھی یہ ظلم و ستم ہوا ہے. کراچی میں مسلمانوں نے مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم کی جو داستانیں رقم کی ہیں وہ کوئی درندہ بھی نہیں کر سکتا. گھروں میں آگ لگائی گئی ہے اور پھر بچوں کو اٹھا اٹھا کر اُس میں پھینکا گیا ہے .تو ایسی قساوتِ قلبی کسی درندے کے اندربھی نہیں ہو گی. انسان جب گرتا ہے تو اسفل سافلین میں ہو جاتا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی : لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾ (التین) ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘ پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا‘‘. تو انسان جب گرتا ہے تو پھر نیچوں میں بھی سب سے نیچے چلا جاتا ہے. تو فرمایا کہ اس تاخیر و تعویق کے باعث تمہارے دل سخت ہوتے چلے گئے اور سختی میں پتھروں کے مانند ہو گئے‘ بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت. اس لیے کہ پتھروں میں تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں. اور ایسے پتھربھی ہیں جو شق ہو جاتے ہیں تو ان میں سے پانی نکل آتا ہے. بڑی بڑی چٹانیں اللہ کے خوف سے منہدم ہو جاتی ہیں‘ اللہ کے سامنے سرنگوں ہو جاتی ہیں. اور تمہارے یہ کرتوت اللہ سے ڈھکے چھپے ہرگز نہیں ہیں. درحقیقت یہ قساوتِ قلبی اور فسق و فجور اسی تعویق و تاخیر کا نتیجہ ہے. اس آیت میں یہودیوں کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے. کیونکہ اُس وقت یہود کی سیرت و کردار اور ان کے تمام معاملات مسلمانوں کے سامنے تھے اس لیے ان کی طرف صرف اشارہ کر دینا کافی تھا.

آیت کے آخر میں فرمایا: 
وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۱۶
’’اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں.‘‘