اب اگلی آیت سلوکِ قرآنی سے متعلق ہے. یعنی جب دلی کیفیت کا ادراک ہوجائے اور آدمی اپنے باطن میں جھانک کر محسوس کرے کہ دل نورِ ایمان سے خالی ہے تو بھی مایوس نہ ہو‘ اسی زمین میں ایمان کی فصل لہلہا سکتی ہے‘لیکن اس کے لیے ہل چلانا ضروری ہے. وہ ہل کون سا ہے؟ فرمایا: اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَ الۡمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقۡرَضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَ لَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿۱۸﴾ ’’یقینا صدقہ دینے والے مرداور صدقہ دینے والی عورتیں ‘اور جو قرض دیں اللہ کو قرضِ حسنہ ‘اُن کو یقینا کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بڑا باعزت اجر ہے‘‘. ہم اسی سورۃ میں وہ آیت بھی پڑھ چکے ہیں :مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا ’’کون ہے جو اللہ کو قرض دے قرضِ حسنہ؟‘‘ سورۃ التغابن میں بھی یہی بات ارشاد فرمائی گئی : اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعِفۡہُ لَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ شَکُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾ ’’اگر تم اللہ کوقرضِ حسنہ دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا .اور اللہ بڑا قدر دان اور بردبار ہے.‘‘

اس آیت کا فلسفہ سمجھ لینا چاہیے . دیکھئے دنیا کی محبت دو حصوں میں منقسم ہے. ایک علائق دُنیوی کی محبت اور ایک مال و اسبابِ دُنیوی کی محبت. ان دونوں کو یکجا کریں گے تو دنیا کی محبت میں سب سے زیادہ علامتی حیثیت جس چیز کو حاصل ہے وہ مال کی محبت ہے. اس لیے کہ مال سے ہی دنیا ہے .مال سے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت اور بڑی سے بڑی آسائش حاصل کی جا سکتی ہے. تو اصل میں مال کی محبت ہے جو قربِ الٰہی کے راستے کی رکاوٹ بنتی ہے اور یہ گویا بریک کا کام کرتی ہے. جب تک یہ بریک نہ کھلے گاڑی نہیں چلتی‘چاہے آپ ایکسیلیٹر دباتے رہیں.سورۂ آل عمران میں فرمایا گیا ہے: لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ (آیت ۹۲’’تم نیکی تک ہرگز رسائی حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ خرچ نہ کردو وہ چیز جو تمہیں محبوب ہے‘‘. یعنی وہ چیز نہیں جو دل سے اُ تر چکی ہو‘ بلکہ محبوب شے اللہ کے راستے میں خرچ کرو. عربی زبان میں ’’لَنْ‘‘ کے ساتھ جو نفی آتی ہے اِس سے زیادہ تاکید ممکن نہیں ہے . تو فرمایا جا رہا ہے : لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ ’’تم ہرگز رسائی حاصل نہیں کر سکتے نیکی تک‘‘. یعنی بخل اور نیکی ساتھ ساتھ ہوں‘ یہ ناممکن ہے. آپ زاہد ہو جائیں گے ‘ عابد ہو جائیں گے ‘لیکن جب تک بخل کا بریک لگاہوا ہے آپ نیک نہیں ہو سکتے. اللہ کے نزدیک نیکی اور شے ہے. اسی طرح آپ محدث ہو سکتے ہیں‘ مفتی ہو سکتے ہیں‘ مفسر ہو سکتے ہیں‘ بڑے عالم ہو سکتے ہیں‘ لیکن نیک نہیں ہو سکتے اگر یہ بریک لگی ہوئی ہے . لہذا اس بات کو ذہن میں رکھئے کہ دل سے مال کی محبت کو نکالنا ہو گا .یہ سلوکِ قرآنی کی شرطِ اوّل ہے‘ یہ ہل تو چلانا ہی پڑے گا. 

اسی کی درحقیقت وضاحت ہے جو سورۃ البلد میں ہے . اللہ تعالیٰ بڑے شکوے کے انداز میں گلہ کر رہے ہیں کہ ہم نے انسان کو کیا کیا نعمتیں دیں ! اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ۙ﴿۸﴾وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ ۙ﴿۹﴾وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ ﴿ۚ۱۰﴾ ’’کیا ہم نے اسے (انسان کو) دو آنکھیں ‘اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟ اور (نیکی اور بدی کے) دونوں نمایاں راستے اسے (نہیں) دکھا دیے؟‘‘ آگے فرمایا: فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَۃَ ﴿۫ۖ۱۱﴾ ’’پس یہ گھاٹی کو عبور نہیں کر سکا‘‘. ہم نے اسے کیسی کیسی نعمتیں دی ہیں‘ مگر یہ کم ہمت‘ تھڑدلا دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہیں کر سکا. تو یہ ایک طرح کی گھاٹی ہے جسے میں بریک کہہ رہا ہوں .اس گھاٹی سے نکل جائیں گے تو آگے راستہ کھلا ہے‘ لیکن گھاٹی اوکھی ہے.پنجابی شاعر عبد اللہ شاکر کے بقول ؏ ’’اوکھی گھاٹی مشکل پینڈا عشق دیاں اسواراں دا!‘‘ تو اس اوکھی گھاٹی کو عبور کرنا مشکل ہے. آگے ارشاد فرمایا: وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡعَقَبَۃُ ﴿ؕ۱۲﴾ ’’اور تم کیاجانو کہ وہ گھاٹی کیا ہے‘‘. فَکُّ رَقَبَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾ ’’کسی (غلام کی) گردن کو غلامی سے آزاد کرا دینا ہے‘‘. اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِیۡ یَوۡمٍ ذِیۡ مَسۡغَبَۃٍ ﴿ۙ۱۴﴾یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾اَوۡ مِسۡکِیۡنًا ذَا مَتۡرَبَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ ’’یا کھانا کھلاناکسی قرابت داریتیم یا خاک نشین مسکین کو(جو مٹی میں مل رہا ہے) فاقے کے دن‘‘. یعنی قحط کے دن کسی یتیم یا فاقہ کش مسکین کو کھانا کھلانا جب اپنے بھی لالے پڑ رہے ہوں. اگر اپنے گودام اناج سے بھرے ہوئے ہیں تب آپ نے لنگر کھول دیا تو یہ اور بات ہے ‘ لیکن جب اپنے بھی لالے پڑے ہوئے ہوں تب کسی بھوکے کو کھانا کھلانا‘ یہ ہے دراصل مشکل گھاٹی. اس گھاٹی کو اگر عبور کر لیا تو کامیابی ہے. یہ بہت اہم مقام ہے اور بہت کم لوگوں نے اس کا گہرائی میں جاکر مطالعہ کیا ہے. اس کے بعد ارشاد ہے :ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ ﴿ؕ۱۷﴾ ’’پھر (اس کے بعد یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی‘‘. یعنی اس گھاٹی میں سے گزر کر جو ایمان لایا ہے دراصل وہ ہے کہ جس کے لیے آگے راستے کھلے پڑے ہیں. دیکھئے ایک ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جو اِس حال میں ایمان لائے ہیں کہ وہ مال کی محبت سے پہلے سے بری ہیں. جبکہ ایک شخص وہ ہے جو دل میں مال کی محبت لیے ہوئے ایمان لایا ہے . لہذا جب تک وہ اپنے دل کو مال کی محبت سے ‘ جو کہ نجاست ہے‘ پاک نہیں کرے گا تو سوائے نفاق کے اس کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا.