’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ اور ’’صدقات‘‘ میں فرق کی نوعیت!

ہمارے اس سلسلۂ درس میں اب تک ایک تو ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘کی اصطلاح آئی ہے : وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کرنا.دوسری اصطلاح آئی ہے اللہ کو قرضِ حسنہ دینا:مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا اور وَ اَقۡرَضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا جبکہ اب ایک اصطلاح ’’صدقات‘‘ کی آئی ہے. صدقہ کس کو کہتے ہیں؟ ہم عام طور پر جو صدقے کالفظ استعمال کرتے ہیں وہ کسی اچھے معنوںمیں نہیں ہوتا. جبکہ صدقہ اصل میں صدق سے بنا ہے. دراصل یہ انسانیت کی صداقت کا ثبوت ہے کہ آپ کسی انسان کو بھوکا دیکھیں تو اسے کھانے میں شریک کریں‘ اسے کسی تکلیف میں دیکھیں تو اگر آپ اس کی تکلیف کا ازالہ کر سکتے ہوں تو اُدھر متوجہ ہوجائیں اور اس کی تکلیف رفع کریں. اگر کسی میں یہ رأفت اور رحمت نہیں ہے تو وہ پھر حقیقی انسان ہی نہیں ہے. اسی لیے حضورنے فرمایا: مَنْ یُّحْرَمِ الرِّفْقَ یُحْرَمُ الْخَیْرَاکُلَّہٗ (۱’’جو شخص دل کی نرمی سے محروم ہو گیا وہ گویا کل کے کل خیر سے محروم ہو گیا‘‘.اس کے پاس خیر کہاں سے آئے گا! کسی کٹھور دل اور سنگدل انسان کے پاس خیر آہی نہیں سکتا. چاہے کوئی شخص اپنے اوپر تقویٰ اور دینداری کے لاکھ لبادے اوڑھ لے‘ مسجدوں کو قالین بھی فراہم کر دے اور بڑے بڑے چندے بھی دے ‘لیکن جب تک وہ دل کی نرمی سے محروم ہے وہ کل کے کل خیرسے محروم ہے. 

لہذا اب مال خرچ کرنے کی دو اقسام سامنے آئی ہیں جنہیں الگ الگ شناخت کرنا ضروری ہے. ایک ہے ابنائے نوع کی داد رسی میں اور ان کی تکلیف دور کرنے میں مال خرچ کرنا .یعنی فقراء‘ مساکین‘ بیواؤں‘ یتیموں اور مقروضوں وغیرہ کے لیے مال خرچ کرنا. یہ ’’صدقہ‘‘ ہے. زکو ٰۃ کا بڑا مصرف بھی یہی ہے. اگرچہ زکو ٰۃ کے مصارف میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ بھی ہے‘ لیکن وہ آٹھ مدات میں سے ایک ہے. اسی لیے زکو ٰۃ کے مصارف پر سورۃ التوبۃ میں جو آیت آئی ہے اس میں لفظ ’’زکو ٰۃ‘‘ آیا ہی نہیں‘ ’’صدقات‘‘ آیا ہے.فرمایا: 
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ .... الخ تو صدقہ اور زکو ٰۃ کو ایک طرف کر لیجیے .جبکہ ایک ہے اللہ کی حکومت قائم کرنے کے لیے‘ اللہ کے پیغام کو عام کرنے کے لیے‘ اللہ کے دین کی جدوجہد کے لیے ساز و سامان فراہم کرنے کے لیے مال خرچ کرنا. یہ ہے ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ اور یہی ہے اللہ کے لیے (۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب فضل الرفق. قرضِ حسنہ. اس لیے کہ یہ تو اللہ کا ذاتی معاملہ ہے . سورۃ الحدید ہی میں آگے جا کر یہ الفاظ آئے ہیں: وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ ’’اور تاکہ اللہ جان لے (ظاہر کر دے) کہ کون ہے جو مدد کرتا ہے اُس کی اور اُس کے رسولوں کی غیب میں رہتے ہوئے‘‘. چنانچہ ایسے لوگوں کو اللہ اپنا مددگار قرار دیتا ہے جو اُس کی حکومت قائم کرنے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حاضر ہو جاتے ہیں. 

ذرا غور کیجیے‘ ہندوستان میں شیعیت کب آئی ہے! ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے کے پورے تین سو برس بعد تک شیعیت کا نام و نشان نہیں تھا. یہ خالص سنی مسلمان ملک تھا‘ لیکن جب شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دی اور اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا تو اب وہ ایران گیا اور وہاں شہنشاہ طہماسپ سے فوج لے کر آیا. یہ جو قزلباش کہلاتے ہیں یہ اس وقت ایران سے آئے تھے اور ان کے ساتھ ہی شیعیت آئی ہے. اب ظاہر بات ہے وہ تو ہمایوں کے مددگار اور محسن تھے جنہوں نے اسے دوبارہ تخت دہلی لے کر دیا‘ جنہوں نے حکومت ِہند اسے دوبارہ دلوائی تو ان سے بڑا محسن کون ہو گا! یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد سے مغلیہ دربار پر اہل تشیع کو غلبہ حاصل ہوا اور ہندوستان کے اندر شیعیت پھیلتی چلی گئی . اب آپ اسی کے اوپر قیاس کیجیے! اس وقت دنیا میں اللہ کی حکومت کے خلاف بغاوت ہے. اگر آپ اللہ کے وفادار بن کر دنیا میں اُس کی حکومت قائم کرنے کے لیے اپنا تن‘ من‘ دھن لگا رہے ہیں تو آپ لازماً اللہ کے مددگار ہوئے. اس سورۂ مبارکہ کی مرکزی اور عظیم ترین آیت انہی الفاظ پر ختم ہو رہی ہے : 
وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ ’’اللہ دیکھنا چاہتا ہے کون ہیں (اُس کے وفادار بندے) جو غیب میں ہونے کے باوجود اُس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں‘‘. سورۃ الصف کی آخری آیت کا مضمون بھی یہی ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ ’’اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بنو!جیسے عیسٰی ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ کون میرا مددگار ہے اللہ کی طرف؟‘‘ تواللہ کے راستے میں جان و مال کھپانے والے اللہ کے بھی مددگار ہیں اور رسول کے بھی مددگار ہیں.

خرچ کی ان دو مدوں کی علیحدہ علیحدہ شناخت کرناضروری ہے. ایک ہے غرباء‘ مساکین‘ یتیموں‘ بیوائیوں‘ مقروضوں‘ غلاموں اور دیگر محتاجوں کی مدد کے لیے‘ ان کی احتیاج اور تکلیف کو دور کرنے کے لیے خرچ کرنا. یہ ہے صدقہ اور خیرات ‘اور ایک ہے انفاق فی سبیل اللہ یا اللہ کو قرضِ حسنہ دینا. اس آیت میں ان دونوں کو جمع کیاگیا: 
اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَ الۡمُصَّدِّقٰتِ ’’یقینا صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں‘‘ وَ اَقۡرَضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا ’’اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ دیا ہے‘‘. اب یہاں پر ’’وَالَّذِیْنَ‘‘ محذوف ماننا پڑے گا کہ ’’وَالَّذِیْنَ اَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا‘‘. اس لیے کہ اسم پر فعل کا عطف براہ راست نہیں آتا . ’’اور وہ لوگ کہ جو اللہ کو قرضِ حسنہ دیں‘‘. یعنی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے‘ اقامت دین کے لیے‘ غلبہ ٔ دین حق کے لیے ‘حکومت ِالٰہیہ کے قیام کے لیے‘ نظامِ خلافت کو برپا کرنے کے لیے . آگے فرمایا: یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَ لَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿۱۸﴾ ’’ان کے لیے دوگنا کیا جائے گا (اجر) اور ان کے لیے بڑا باعزت اجر ہے‘‘. اللہ کو قرضِ حسنہ دینے کامطالبہ اس سورۃ میں پہلے بھی بایں الفاظ آیا ہے : مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَ لَہٗۤ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۚ۱۱﴾ اور سورۃ التغابن میں بھی یہ الفاظ آئے ہیں: اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعِفۡہُ لَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ شَکُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾ کم و بیش وہی الفاظ یہاں ہیں : یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَ لَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿۱۸﴾ کہ ان کے لیے اجر میں بڑھوتری ہوتی رہے گی‘ اضافہ ہوتا رہے گا‘ اور اضافی طور پر جو اجر کریم دیا جائے گا وہ اس پر مستزاد ہے. تمہارا اصل مال تو تمہیں بہت بڑھا ہوا ملے گا ہی‘ مزید اللہ کی طرف سے بہت باعزت بدلہ ‘ بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ ملے گا.