فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ’’اورجو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر وہی ہیں صدیق اورشہید اپنے ربّ کے پاس‘‘. لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ ’’ان کے لیے محفوظ ہے ان کا اجر بھی اور ان کا نور بھی‘‘. وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿٪۱۹﴾ ’’اور جنہوں نے کفر کیا اور تکذیب کی ہماری آیات کی تووہ جہنم والے ہیں.‘‘

جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے ‘ تربیت اور تعلیم کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ ایک طرف زجر و ملامت ‘ سختی ‘ تنبیہہ اور تہدید ہو ‘لیکن ساتھ ہی حوصلہ افزائی بھی ہو‘ تھپکی بھی دی جائے ‘ شاباش بھی ہو. دل کی اُن ہمتوں کو از سر نو سہارا دیا جائے جو کمزور پڑ رہی ہوں. ان چار آیات کے لیے میں نے ’’سلوکِ قرآنی‘‘ کا عنوان تجویز کیا ہے. پہلی آیت میں جھنجھوڑنے کا انداز ہے کہ کیا ہو گیا ہے؟ کیوں تاخیر و تعویق میں پڑے ہوئے ہو؟ ایمان کا دعویٰ بھی کرتے ہو لیکن اس کے حقوق ادا کرنے کو تیار نہیں ہو! 
لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾ ’’کیوں کہتے ہو وہ جو کرتے نہیں ہو؟‘‘ اور اس کے ساتھ ہی تہدید اور تنبیہہ بھی ہے کہ دیکھ لو! تم سے پہلے بھی ایک اُمت تھی‘ اور بعض اعتبارات سے تو اس کی بڑی فضیلت تھی‘ ان کے ہاں بیسیوں نبی مبعوث ہوئے. ظاہر بات ہے کہ چودہ سو برس تک اُن میں نبوت کا تار ٹوٹا ہی نہیں‘ تو یقینا بیسیوں نبی آئے ہوں گے. بہرحال انہیں بھی کتابیں دی گئی تھیں. ایک کتاب کا یہاں جو خاص طور پر ذکر ہو رہا ہے وہ تورات ہے. فرمایا : وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُ ’’اوراُن لوگوں کے مانند نہ ہو جائیں جنہیں کتاب دی گئی تھی پہلے‘‘. اگر ’’الکِتاب‘‘ میں ’’ال‘‘ کو لامِ جنس مانا جائے تو یہاں پر تین کتابیں مراد ہو سکتی ہیں‘ تورات‘ انجیل اور زبور. تو یہاں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بھی اسی انجام سے دوچار ہو جاؤ جس انجام سے وہ دوچار ہو چکے ہیں اور وہ نشانِ عبرت بن چکے ہیں.

اگلی آیت میں حوصلہ افزائی ہے کہ گھبراؤ نہیں‘ مایوس نہ ہو جانا .جیسے ایک جگہ فرمایا گیا ہے : 
وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ؕ (یوسف:۸۷’’اوراللہ کی رحمت سے مایوس مت ہونا‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت ہے کہ وہ تمہاری نگاہوں کے سامنے مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے. اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی اس مردہ کھیتی کو ایمان‘ عملِ صالح اور انفاق فی سبیل اللہ کی فصل سے آباد کردے گا. البتہ اس کے لیے تمہیں ہل چلانا ہو گا‘دل سے حب مال کی نجاست کو نکالنا ہو گا. حب دُنیا کے لیے علامت (symbol) مال کی محبت ہے. اسے ہر دو طریقوں پر دل سے نکالنا ہو گا‘ محتاجوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کر کے بھی اور اللہ کے دین کے قیام کی جدوجہدکے لیے بھی. مَیں اس سے قبل عرض کر چکا ہوں کہ یہ حب مال ایک طرح کا بریک ہے. یہ بریک کھلے گا تو گاڑی چلے گی‘ ورنہ ایکسیلیٹر دباتے رہو گے گاڑی حرکت نہیں کرے گی. اس کے لیے دونوں مدّیں بیان کر دی گئیں. ایک مد صدقہ اور خیرات ہے کہ غرباء‘ مساکین ‘ یتیموں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنا‘ بھوکوں کو کھانا کھلانا ‘جو بیمار ہیں اُن کے علاج معالجے کی صورت پیدا کرنا‘ مقروضوں کا قرض ادا کرنا. اور دوسری مدّ ہے اللہ کے دین کے لیے قرضِ حسنہ دینا‘ اللہ کے دین کے غلبے کے لیے‘ اس کی حکومت قائم کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر مال صرف کرنا.اس سے دل کی نجاست دُور ہو جائے گی. اسی کانام ’’تزکیہ‘‘ ہے. ’’زکو ٰۃ‘‘ کا لفظ اسی مالی عبادت کے لیے اسم علم ہے. اس لیے کہ اس سے تزکیہ ہوتا ہے‘ اس سے دلوں کے اندر کی نجاست دُھلتی ہے‘ اور وہی درحقیقت ایمان کے راستے میں رکاوٹ ہے. 

تزکیہ کا مفہوم ایک مثال سے سمجھئے! دیکھئے ایک باغبان نے اپنے باغ میں کچھ پودے اور درخت تو خود لگائے ہیں. وہ چاہتا ہے کہ یہ پودے یا درخت پروان چڑھیں‘لیکن کچھ خودرو گھاس اور جھاڑ جھنکاڑ اِدھر اُدھر اُگ آئی ہے. اب ظاہر بات ہے کہ یہ خودرَو نباتات 
(unwanted plants) ہوا میں سے آکسیجن کو بھی جذب کر رہی ہیں. اگر یہ نہ ہوں تو پوری کی پوری آکسیجن جو مہیا ہے وہ اس پودے اور درخت کے لیے ہو گی کہ جو باغبان چاہتا ہے کہ پروان چڑھے.اسی طرح زمین کے اندر جو بھی قوتِ نمو ہے اس میں سے بھی یہ کھینچ رہے ہیں‘ ورنہ یہ ساری قوتِ نمو اُس پودے کے لیے ہو گی جو پودا باغبان چاہتا ہے کہ پروان چڑھے. لہذا باغبان کھرپا ہاتھ میں لے کر اِن سب کو صاف کر کے پھینک دیتا ہے‘ تاکہ اصل پودا یا درخت بڑھے اور پروان چڑھے. یہ تزکیہ ہے. اسی طرح انسان کی اصل نشوونما کے لیے بھی ضروری ہے کہ مال کی محبت‘ جو اصل میں علامت ہے دنیا کی محبت کی‘ اس کی گرفتاری سے اسے نجات ملے . یہ بند اور بریک کھلے گا تب ہی اس کی نشوونما کا راستہ آسان ہو گا.