قرآنی اصطلاح کے طور پر ’’شہید‘‘ کا مفہوم

اب دوسرے حجاب کو سمجھئے . لفظ ’’شہید‘‘ کے عام طور پر دو مفہوم ہیں. ان میں سے قرآن مجید کے اعتبار سے جو مفہوم زیادہ اہم ہے وہ کچھ اور ہے ‘ وہ مَیں آگے چل کر بیان کروں گا. لیکن بدقسمتی سے دوسرا مفہوم جو اِس لفظ کا شاذ مفہوم ہے اور قرآن میں تقریباً ذکر ہی نہیں ہوا‘ وہ عام اور رائج ہو گیا ہے. وہ مفہوم اس آیت کے اصل فہم میں پردہ اور حجاب بن گیا ہے. عام طور پر ہمارے ہاںشہید کے معنی ’’اللہ کی راہ میں قتل ہونے والا‘‘ لیے جاتے ہیں. پورے قرآن مجید میں یہ لفظ اس معنی میں کہیں نہیں آیا سوائے سورۂ آل عمران کی ایک آیت کے‘ جہاں صرف امکان ہے کہ وہ معنی لیے جا سکیں. ورنہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کے لیے بھی لفظ مقتول فی سبیل اللہ آیا ہے. جیسے فرمایا گیا ہے : وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ (البقرۃ:۱۵۴’’اور ان لوگوں کو جو اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں مردہ مت کہو!‘‘اور وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ (آل عمران:۱۶۹’’اور ان لوگوں کو جو اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں‘ مردہ مت گمان کرو!‘‘ قرآن میں نبیوں اور رسولوں کے لیے بھی قتل کے الفاظ ذکرہوئے ہیں. جیسے : وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ (آل عمران:۱۴۴’’اور محمد ( ) نہیں ہیں مگرایک رسول‘ ان سے پہلے بھی کئی رسول گزرچکے ہیں.تو کیا اگر اُن پر موت آ جائے یا وہ قتل کر دیے جائیں (اللہ کی راہ میں) تو تم لوٹ جاؤ گے اپنی ایڑیوں کے بل؟‘‘ 

قرآن مجید کے کسی مقام پر بھی یہ لازم نہیں آتا کہ مقتول فی سبیل اللہ کے لیے لفظ ’’شہید‘‘ ہی ترجمہ کیا جائے. سورۂ آل عمران کی ایک آیت میں صرف امکان ہے کہ مقتول فی سبیل اللہ کے لیے لفظ ’’شہید‘‘ ترجمہ کیا جائے. اس آیت میں الفاظ وارد ہوئے ہیں : وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ؕ (آیت ۱۴۰’’اللہ چاہتا ہے (ان آزمائشوں کے ذریعے) کہ تم میں سے کچھ کواپنا گواہ بنا لے‘‘یا ’’تم میں سے کچھ کو اللہ اپنی راہ میں قتل ہونے کا مرتبہ عطا کر دے‘‘. ذہنوں میں اس لفظ ’’شہید‘‘ کا مفہوم یہ بیٹھ گیا ہے کہ ’’اللہ کی راہ میں قتل ہونے والا‘‘. اگرچہ حدیث میں یہ لفظ مقتول فی سبیل اللہ کے لیے آیا ہے ‘لیکن وہ بابِ اِستفعال سے ’’اُسْتُشْھِدَ‘‘ کی صورت میں ہے کہ اس کی شہادت قبول کر لی گئی‘ اس کو شہادت کا مرتبہ دے دیا گیا. لیکن عام طور پر ہماری زبانوں پر یہ لفظ شہید اُس شخص کے لیے استعمال ہو تاہے جو اللہ کی راہ میں قتل ہو گیا ہو. 

اس غلط فہمی کے نتیجے میں اس آیت کی قراء ت کا بھی فرق پڑ گیا ہے. چنانچہ اب اس آیت 
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ کے ظاہری مفہوم سے پہلا سوال تو یہ پیدا ہو گیا ہے کہ کیا سب کے سب مؤمن صدیق ہیں جو ایمان لائے ہیں اللہ اور اس کے رسولوں پر؟ اگر آپ اس آیت کو پچھلی آیت سے کاٹ کر یہاں استیناف سمجھیں گے اور پچھلی آیت سے اس کا ربط پیش نظر نہیں ہو گا تو اس کا مطلب تو یہی ہو گا کہ جو لوگ بھی ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پروہ صدیق ہیں!پھر چونکہ شہید صدیق سے الگ ایک علیحدہ مفہوم کا لفظ سمجھا جا رہا ہے یعنی ’’اللہ کی راہ میں قتل ہونے والا‘‘ تو اس بنا پر اکثرحضرات نے ’’ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ ‘‘ پر وقف کر کے وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ کو ایک علیحدہ جملہ مانا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں قرآن مجید میں ’’الصِّدِّیۡقُوۡنَ ‘‘ اور ’’وَ الشُّہَدَآءُ ‘‘ کے مابین وقف کی علامت لگی ہوتی ہے.لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اسلاف میں سے حضرت مجاہدؒ جو تابعی ہیں اور علم قرآن اور علم تفسیر کی بڑی بڑی شخصیتوں اور بزرگوں میں سے ہیں ‘ ان کی رائے یہ ہے کہ یہاں پر اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ کلامِ مسلسل ہے ‘لہذا اسے بغیر وقف کیے رواں پڑھا جائے گا.

اب آپ سمجھئے کہ اس لفظ ’’شہید‘‘ کا اصل مفہوم کیا ہے؟ دیکھئے ’’صِدِّیْق‘‘ اور ’’شَہِیْد‘‘ قرآن کریم کی دو اہم اصطلاحات ہیں. اصطلاحات میں صرف لغوی معانی معتبر نہیں ہوا کرتے‘ بلکہ لغوی مفہوم کی بنیاد پر اصطلاحی مفہوم کو سمجھنا ہوتا ہے. جیسے ’’اَمن‘‘ سے ’’اِیمان‘‘ بنا ہے‘ اب ’’اِیمان‘‘ نے جب اصطلاح کی شکل اختیار کی تو اس کے معنی ہیں : التَّصْدِیْقُ بِمَا جَآءَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.اسی طرح صِدِّیْق‘ فِعِّیْل کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے . لہذا صِدِّیْق سے مراد ہے انتہائی راست گو‘ راست باز‘ راست رو انسان ‘ کہ جو ہر اچھی بات کی تصدیق کے لیے ہر وقت آمادہ رہے. اوراصطلاحاً اس سے مراد وہ سلیم الفطرت لوگ ہیں کہ جن کے لیے نبی کی دعوت ہرگز اجنبی نہیں ہوتی. جیسے ہی نبی کی دعوت اُن کے کانوں تک پہنچتی ہے انہیں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کے دل کی آواز ہے. ؎

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
مَیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے!

اُن کی فطرت اپنی سلامتی پر برقرار ہوتی ہے. وہ غور و فکر اور سوچ بچار کرنے والے لوگ ہوتے ہیں‘ انہیں خود اپنے اندر سے وہ گواہی اُبھرتی ہوئی نظر آ رہی ہوتی ہے‘ لہذا جیسے ہی نبی کی دعوت اُن تک پہنچتی ہے فوراً تصدیق کر دیتے ہیں. اس کی سب سے نمایاں مثال حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں‘ جن کے بارے میں خود حضور نے فرمایا کہ میں نے جس کے سامنے بھی اپنی دعوت رکھی ہے اُس نے کچھ نہ کچھ تأمل ضرور کیا ہے سوائے ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) کے .انہوں نے ایک لحظہ کی تأخیر کے بغیر تصدیق کی ہے تو یقینا یہ صرف اس لیے ہوا ہے کہ یہ چیز پہلے سے ان کی فطرت میں موجود تھی‘ ورنہ تو یہ بہت بڑا دعویٰ تھا‘ نبوت و رسالت کا دعویٰ کوئی معمولی دعویٰ تو نہیں ہے. 

اسی طرح اب لفظ ’’شہید‘‘ پر غور کیجیے! ’’شہید‘‘ کے لغوی معنی ہیں ’’جو موجود ہو‘‘. 
شَھِدَ‘ یَشْھَدُ کا مطلب ہے موجود ہونا. شاہد و غائب کے الفاظ ہماری عام بول چال میں بھی استعمال ہوتے ہیں. شاہد اسے کہتے ہیں جو موجود ہو اور غائب وہ جو موجود نہ ہو. اب اسی لغوی معنی سے اس میں دو اضافی مفہوم پیدا ہوئے. غور کیجیے کہ جو شخص کسی وقوعہ کے وقت موجود ہو تو اُسی کی گواہی معتبر ہوتی ہے ‘لہذا جو موجود ہے وہ گواہ ہے. اگر کہیں کوئی حادثہ ہوا ہے‘کسی کا قتل ہو گیا ہے‘ یا کوئی اور جرم ہوا ہے ‘ تو جو اُس وقوعہ کے وقت موجود ہو گا وہی تو گواہی دینے کا اہل ہے. لہذا گواہی موجودگی کی بنا پر ہوتی ہے. اور اسی لغوی معنی کی بنیاد پر اِس کے معنی مددگار کے بھی ہیں. اس لیے کہ جوکسی ضرورت کے وقت موجود ہو گا وہی مدد کر سکے گا. فرض کیجیے آپ کا کوئی بہت ہی جگری‘ وفادار اور مخلص دوست ہے‘ لیکن جب وہ وقوعہ پر موجود ہی نہیں ہے تو وہ آپ کی مدد کیسے کر سکے گا؟سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۳ میں یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے:

وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳
’’اگر تمہیں کوئی شک ہے اُس چیز کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے (محمد ) پر نازل کی ہے تو پھر تم بھی اس جیسی کوئی ایک سورۃ بنا کر لے آؤ اور اس کے لیے تم ا للہ کے مقابلے میں اپنے تمام مددگاروں کو بلا لو (جس کو چاہو جمع کر لو اور اپنی ساری صلاحیت کو بھی مجتمع کر لو اور اُس کا مقابلہ کر لو) اگر تم سچے ہو.‘‘

یعنی فی الواقع تو تمہیں اِس کے اللہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے‘ لیکن تم صرف بات بنا رہے ہو ‘ تمہارا دل تو گواہی دے رہا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے. تو وہاں 
’’الشُّہَدَآءُ ‘‘ کے معنی مددگار کے ہیں.بہرحال یہاں پر اصطلاحاً شہید سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کی طرف سے اپنی دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے لوگوں پر دنیا میں گواہی قائم کرے‘ حجت قائم کرے اور پھر یہ کہ قیامت کے دن بھی کھڑے ہو کر وہ گواہی دے کہ اے اللہ! میں نے تیرے بندوں تک تیرا یہ پیغام پہنچا دیا تھا ‘لہذا اب یہ خود ذمہ دار ہیں. منصب ِرسالت کے لیے قرآن مجید میں یہ لفظ ’’شہادت‘‘ انتہائی کثرت کے ساتھ استعمال ہوا ہے. رسول دنیا میں حق کی گواہی دیتا تھا. (مَیں نے یہاں ماضی کا صیغہ اس لیے استعمال کیا ہے کہ اب یہ سلسلۂ نبوت و رسالت بند ہو چکا ہے.) اب یہ فریضہ ٔمنصبی بحیثیت مجموعی اُمت کو ادا کرنا ہے ‘ اب یہ اُمت کا فریضہ ٔ رسالت ہے. اب شخصی رسالت نبوت کے ختم ہونے کے ساتھ ختم ہو چکی ہے. نبی دنیا میں اپنے قول و عمل سے حق کی گواہی دیتا تھا ‘ وہ جو کہتا تھا کر کے دکھاتا تھا‘ تاکہ ثابت ہو جائے کہ جس بات کی طرف بلایا جا رہا ہے وہ ناقابل عمل نہیں ہے‘ یہ دعوت صرف لفاظی نہیں ہے‘ بلکہ قابل عمل ہے. اور پھر یہ کہ نبی اکرم نے تو اِس نظامِ حیات کو قائم کر کے دکھا دیا کہ یہ نظام قائم ہوسکتا ہے اور قائم کیا جا سکتا ہے. اور پھر حضور  نے یہ نظام چلا کر بھی دکھا دیا‘ تاکہ حجت اپنے آخری درجے کو پہنچ جائے. اسی کا نام اتمامِ حجت ہے. چنانچہ قیامت کے دن رسول استغاثہ کے چشم دید گواہ (prosecution witness) کی حیثیت سے کھڑے ہوں گے اور گواہی دیں گے (۱.ارشادِ الٰہی ہے : 
فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۴۱﴾ (النساء) (۱) مَیں نے اس موضوع پر بڑی مفصل تقاریر کی ہیں . ’’قرآن کا فلسفہ ٔشہادت‘‘ کے عنوان سے اس کے کیسٹس موجود ہیں. ’’پس اُس (قیامت کے) دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور آپ‘کو بھی (اے محمد ) اِن لوگوں کے خلاف بطورِ گواہ کھڑا کریں گے!‘‘

اس آیت سے متعلق ایک واقعہ بھی ہے جو ہمارے لیے بہت ہی عبرت انگیز اور سبق آموز ہے. نبی اکرم نے ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمائش کی کہ مجھے قرآن سناؤ. انہوں نے عرض کیا حضور! آپ کو قرآن سناؤں؟ آپ پر تو یہ نازل ہوا ہے. فرمایا: ’’ہاں یہ ٹھیک ہے‘ لیکن مجھے دوسروں سے سن کر کچھ اور لذت حاصل ہوتی ہے‘‘. اب انہوں نے 
امتثالاً للامر (حکم کی بجا آوری میں) سورۃ النساء کی پہلی آیت سے تلاوت شروع کی اور پڑھتے گئے. جب اِس آیت پر پہنچے : فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۴۱﴾ تو حضورنے فرمایا: ’’اب بس کرو!‘‘ جب حضرت عبد اللہ ؓ نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے.(یہ حدیث متفق علیہ ہے.)

ہر اُمت کی طرف جو بھی رسول بھیجے گئے تھے (علیہ الصلوٰۃ والسلام) وہ رسو ل قیامت کے دن سرکاری گواہ کی حیثیت سے کھڑے ہو کر گواہی دیں گے کہ اے اللہ!تیرا جو پیغام مجھ تک آیا تھا ‘میں نے ان تک پہنچا دیا. اب یہ اپنے طرزِ عمل کے خود ذمہ دار ہیں‘ خود جواب دہ ہیں.متذکرہ بالا آیت کا اگلا حصہ ہے: 
وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۴۱﴾ ’’اور (اے نبی !) آپ کو ہم لائیں گے ان کے خلاف گواہ کے طور پر‘‘. نوٹ کیجیے ’’علٰی‘‘ کا صلہ جب بھی آتا ہے وہ مخالفت کے لیے ہوتا ہے. جیسا کہ بہت ہی مشہور حدیث ہے : اَلْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَّکَ اَوْ عَلَیْکَ (۱’’ قرآن یا توتمہارے حق میں حجت ہو گا یا تمہارے خلاف حجت بنے گا‘‘.شہادت کسی کے حق میں ہوتی ہے اور کسی کے خلاف ہوتی ہے. ہر شخص جو گواہ کی حیثیت سے پیش ہوتا ہے ‘اس کی گواہی کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف جاتی ہے. جب یہ گواہی ’’لِ‘‘ کے صلے کے ساتھ آتی ہے (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الطھارۃ‘ باب فضل الوضوء. تو کسی کے حق میں جار ہی ہو تی ہے.جیسے سورۃ النساء میں ارشاد ہوا : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ (آیت ۱۳۵’’اے اہل ایمان! کھڑے ہو جاؤ پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے حق میں گواہی دینے کے لیے‘‘. لیکن یہ خاص طور پر نوٹ کیجیے کہ اکثر و بیشتر اس کے ساتھ ’’علٰی‘‘ کا صلہ لگتا ہے .قیامت کے دن جب ہمارے اپنے اعضاء و جوارح ہمارے خلاف گواہی دیں گے تو ہم کہیں گے : لِمَ شَہِدۡتُّمۡ عَلَیۡنَا ؕ ’’تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دے دی ؟‘‘تم ہمارے اپنے اعضاء و جوارح ہو کر ہمارے خلاف گواہی دے رہے ہو؟ ہمارے یہ اعضاء و جوارح جواب میں کہیں گے : اَنۡطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡطَقَ کُلَّ شَیۡءٍ (حٰمٓ السجدۃ:۲۱’’ آج اُس اللہ نے ہمیں بھی گویائی عطا کر دی ہے جس نے ہر شے کو نطق وگویائی عطا کی ہے‘‘. جہاں بھی رسالت کی گواہی کے لیے یہ لفظ آیا ہے ’’علٰی‘‘ کے ساتھ آیا ہے.سورۃ المزمل میں ارشاد ہوا: اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا ﴿ؕ۱۵﴾ ’’(دیکھو لوگو!) ہم نے بھیج دیا ہے تمہاری طرف اپنا ایک رسول تمہارے خلاف گواہ کی حیثیت سے‘ جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا.‘‘ 
رسول دنیا میں تو لوگوں کو حق کی دعوت دیتا ہے‘ وہ ان کے لیے جو اُس کی دعوت کو قبول کر لیں رحمت خداوندی کا مظہر بن جاتا ہے ‘ لیکن جنہوں نے اس کی دعوت کو ردّ کر دیا اُن پر گویا حجت قائم ہو گئی. قیامت کے دن اب وہی رسول کھڑا ہو کر اُن لوگوں کے خلاف گواہی دے گا کہ اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا‘ میری طرف سے کوتاہی نہیں ہوئی. یہی وجہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور نے ‘ جبکہ سوا لاکھ کا مجمع سامنے تھا‘ یہ سوال کر کے گواہی لے لی: 
اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ؟ ’’لوگو!میں نے پہنچا دیاکہ نہیں؟‘‘ میری طرف سے حق تبلیغ میں کوئی کمی تو نہیں رہ گئی؟ اور پورے مجمع نے یک زبان ہو کر کہا : ’’نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ‘‘ (۱یعنی ’’ہم گواہ ہیں کہ (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الحج‘ باب حجۃ النبی . آپؐ نے حق رسالت ادا کر دیا‘ حق امانت ادا کر دیااور ہماری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا‘‘.بلکہ ایک روایت میں تو یہ تفصیل ہے : ’’اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَ وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ‘‘ یعنی ’’ہاں حضور! ہم گواہ ہیں کہ آپؐ نے رسالت کا حق ادا کر دیا‘ امانت کا حق ادا کر دیا‘ اُمت کی خیر خواہی کا حق ادا کر دیا اور گمراہی کے اندھیروں کے پردے چاک کر دیے‘‘. اب حضور نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور انگشت شہادت سے آسمان کی طرف اور پھر لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا : اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ‘ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ‘ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ’’اے اللہ تو بھی گواہ رہ! اے اللہ تو بھی گواہ رہ! اے اللہ تو بھی گواہ رہ!‘‘ انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ مَیں نے انہیں تیرا پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا ہے. پھر حضور نے لوگوں سے فرمایا: فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (۱’’اب پہنچائے وہ جو یہاں ہے اُس کو جو یہاں نہیں ہے‘‘. یہ ہے اصل میں اُمت کا فریضہ ٔرسالت. اللہ نے بھیجا ہے محمد رسول اللہ  کو اور محمد  نے اپنا یہ فریضہ ٔمنصبی اُمت کے حوالے کیا.اس لیے کہ حضور‘ تو پوری نوعِ انسانی کے لیے بھیجے گئے ہیں.ازروئے الفاظِ قرآنی : وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (سبا:۲۸’’اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر تمام انسانوں کے لیے خوش خبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر‘‘. اور حضور کی حیاتِ طیبہ میں تو اتمامِ حجت اگر ہوا ہے تو صرف جزیرہ نمائے عرب کے مسلمانوں پر ہوا ہے‘ قیصر و کسریٰ کو تو آپ کے ابھی صرف خطوط ہی گئے تھے ‘ ایران کے لوگوں کو ابھی کیا معلوم تھا کہ وہ دعوت کیا ہے؟ رومیوں کو کیا پتا تھا کہ وہ دعوت کیا ہے؟اس کے دلائل کیا ہیں؟ دعوت کے اتمامِ حجت کی حد تک تو فریضہ ادا نہیں ہوا. تو یہ کام اب مسلمانوں نے کرنا ہے.

اب نوٹ کیجیے کہ یہ ہے اصل میں شہادت ! اور قرآن مجید میں دو جگہوں پر اسی مفہوم کو بیان کیا گیا ہے . سورۃ البقرۃ میں یہ مضمون اِن الفاظ میں آیا ہے : 
وَ کَذٰلِکَ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الحج ‘باب الخطبۃ ایام منیٰ. وصحیح مسلم‘ کتاب القسامۃ والمحاربین والقصاص والدیات‘ باب تغلیظ تحریم الدماء والاعراض والاموال. جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ (آیت۱۴۳’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں اُمت ِوسط بنایا ہے تاکہ تم پوری نوعِ انسانی پر گواہی دو (حجت قائم کرو) اور ہمارے رسول تم پر گواہی قائم کریں (حجت قائم کردیں)‘‘. یہ وہ گواہی ہے جو قیامت کے دن ظاہر ہو جائے گی . ازروئے الفاظ قرآنی : فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۴۱﴾ (النساء) ’’پس کیا حال ہو گا (اُس دن) جب ہم ہر اُمت میں ایک گواہ کھڑا کریں گے اور آپ کو (اے نبی !) کھڑا کریں گے ان کے خلاف بطورِ گواہ‘‘. اس کے بعد اگلی آیت میں فرمایا: یَوۡمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ عَصَوُا الرَّسُوۡلَ لَوۡ تُسَوّٰی بِہِمُ الۡاَرۡضُ ؕ وَ لَا یَکۡتُمُوۡنَ اللّٰہَ حَدِیۡثًا ﴿٪۴۲﴾ ’’اُس دن جن لوگوں نے (اس دنیا میں) کفر و انکار کیا تھا‘ اوررسول( ) کی نافرمانی کی تھی‘ تمنا کریں گے کہ کاش وہ زمین میں دھنسا دیے جائیں! (اُن کے اوپر زمین برابر ہو جائے‘ نیست و نابود ہو جائیں‘ ان کا وجود ہی باقی نہ رہے) لیکن وہ وہاں کوئی بات اللہ سے چھپا نہیں سکیں گے.‘‘

شہادت علی الناس کایہی مضمون سور ۃ الحج کے اخیر میں آیا ہے. فرمایا: 
وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ (آیت ۷۸’’اور جہاد کرو اللہ کے لیے جیسا کہ اس کے لیے جہاد کا حق ہے‘‘. اور یہ جہاد کس لیے ہو گا؟ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ ’’اُس نے تمہیں چن لیا ہے‘‘.اپنے نصیب پر فخر کرو کہ یہ اُمت ِمسلمہ اس سلسلۂ رسالت میں ایک کڑی (link) کی حیثیت سے تاقیامِ قیامت جوڑ دی گئی ہے. سورۃ الحج کے آخری رکوع میں پہلے یہ الفاظ آئے ہیں : اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ؕ (آیت ۷۵’’اللہ چن لیتا ہے فرشتوں میں سے بھی اپنے پیغام بر اور انسانوں میں سے بھی‘‘. اور اب اس کے بعد فرمایا ہے : ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡاُس نے تمہیں چن لیا ہے‘ تمہیں پسند کر لیا ہے. اس فریضہ ‘شہادت علی الناس کی ادائیگی کے لیے تمہارا انتخاب کیا ہے. اب آخری رسول تو ہمارے محمد ہیں اور باقی نوعِ انسانی پر تاقیامِ قیامت یہ شہادت کی ذمہ داری ادا کرنا تمہارے ذمہ ہے. اور ذرا آگے چل کر فرمایا کہ یہ محنت اس لیے کرنی ہے : لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ (الحج:۷۸’’تاکہ رسول تم پر گواہ ہو جائیں اور تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ ‘‘. یہ ہے قرآن میں شہادت کا اصل مفہوم. یہی وجہ ہے کہ تمام رسولوں کو ’’شہید‘‘ کہا گیا‘ حالانکہ رسول تو قتل ہوئے ہی نہیں. انبیاء ضرور قتل ہوئے ہیں‘ لیکن کوئی رسول قتل نہیں ہوا. حضرت مسیح علیہ السلام رسول تھے‘ یہودیوں نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی تو اللہ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا : وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ (النساء:۱۵۷’’انہوں نے نہ تو اسے قتل کیا اور نہ سولی دی‘‘. بہرحال یہاں پر (سورۃ الحدید میں) شہید کا مفہوم عام لوگوں نے چونکہ ’’مقتول فی سبیل اللہ‘‘لیا ہے تو اس کی وجہ سے وہ الجھنیں پیدا ہو گئیں جن کی بنا پر اس آیت کی اصل عظمت لوگوں پر منکشف نہیں ہوئی.