اب آپ ان دونوں اصطلاحات ’’صدیقیت‘‘ اور ’’شہادت‘‘ کی اصل حقیقت کو سمجھئے! دیکھئے‘ سورۃ الفاتحہ کی پانچویں آیت کے الفاظ ہیں : اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾ اور چھٹی آیت میں الفاظ آتے ہیں: صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ ’’راستہ اُن کا جن پر تیرا انعام ہوا‘‘. لیکن وہ کون لوگ ہیں جن پر اللہ کا انعام ہوا‘ اس کی وہاں پر کوئی وضاحت نہیں ہے. اس کی وضاحت سورۃ النساء کی آیت ۶۹ میں بایں الفاظ کر دی گئی : وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ’’جو کوئی بھی اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کا حق ادا کردے گاتو یہ لوگ اُن کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا‘‘. اور وہ کون لوگ ہیں؟ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ ’’یعنی انبیاء‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین. اور کیا ہی خوب ہے ان کی رفاقت‘‘. تو یہمنعم علیہم چار گروہ ہیں: انبیاء‘ صدیقین‘ شہداء اور صالحین. ان میں نبوت سرفہرست ہے. ’’صالحیت‘‘ گویا ان چار مراتب کی base line ہے. اس کے اوپر شہداء ‘ان کے اوپر صدیقین اور سب سے اوپر انبیاء ہیں. ظاہر بات ہے نبوت تو پہلے بھی ہمیشہ وہبی شے تھی‘ کسبی نہیں تھی‘ کوئی شخص اپنی محنت و مشقت ‘ ریاضت و عبادت اور کسی سلوک کی منازل طے کرنے سے نبوت حاصل نہیں کر سکتا تھا‘ یہ خالص وہبی شے تھی‘ جس کا دروازہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا. تو گویا عام انسانوں کے لیے تین درجے کھلے ہوئے ہیں: صالحین ‘ شہداء اور صدیقین. 

صدیق اور شہید کے مابین فرق کیا ہے‘یہ جان لیجیے. ذرا نوٹ کیجیے‘ سورۂ مریم میں حضرت ابراہیم اور حضرت ادریس علیہما السلام کے بارے میں 
صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا جبکہ حضرت موسیٰ اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کے بارے میں رَسُوۡلًا نَّبِیًّا کے الفاظ آئے ہیں. اس اعتبار سے یہ قرآن کریم کا ایک خاصا مشکل مقام ہے کہ ان کے درمیان فرق کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی شخصیت کے جو سانچے(personality patterns) بنائے ہیں ان میں دو تقسیمیں بہت نمایاں ہیں. جدید سائیکالوجی میں آپ انہیں دروں بیں (introvert) اور بیروں بیں (extrovert) کہتے ہیں. مقدم الذکر لوگ غور و فکر کرنے والے ‘ سوچ بچار میں منہمک‘ تنہائی پسند اور سلیم الفطرت ہوتے ہیں‘ جبکہ مؤخر الذکر لوگ فعال قسم کے‘ بھاگ دوڑ کرنے والے ہوتے ہیں. یہ باہر کی دنیا میں مگن رہتے ہیں اور انہیں اپنے باطن میں جھانکنے کا موقع ہی نہیں ملتا. ان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ خوب گفتگوئیں ہو رہی ہیں‘مجلسوںمیں خوب بحث ہو رہی ہے‘ خوش گپی ہو رہی ہے. چنانچہ یہ لوگ حقائق کی طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوتے. ان دو کے علاوہ بہت شاذ لوگ ambivert ہوتے ہیں کہ جن کے اندر دروں بینی اور بیروں بینی کی دونوں صلاحیتیں موجود ہوں اور توازن کے ساتھ ہوں .بلکہ اکثر و بیشتر یہ دو چیزیں اگر کسی میں جمع ہو بھی جائیں تو پھر اُس کا توازن پر قائم رہنا چونکہ مشکل ہوتا ہے اس لیے ambivert کا لفظ بالعموم اچھے مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا. آدمی یکسو اوریک رخا ہو گا تو وہ زیادہ مستحکم (stable) رہے گا‘ جبکہambivert کے اندر عدمِ استحکام (instability) کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں. 

کسی شخصیت میں دونوں چیزیں موجود ہوں اور توازن کے ساتھ برقرار ہوں اس کی کامل مثال تو ایک ہی ہے اور وہ محمد رسول اللہ ہیں. باقی آپ کو انبیاء میں بھی دو 
درجہ بندیاںملیں گی‘ جیسا کہ آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں دو درجہ بندیاں ملتی ہیں. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طبیعت کے اندر شروع ہی سے رقیق القلبی موجود تھی. کسی کو دکھ میں دیکھتے تو تڑپ اٹھتے‘ ہر کسی کی تکلیف کو رفع کرنے کی کوشش کرتے. پھر یہ کہ سلیم الفطرت تھے‘ کیسے ممکن تھا کہ کسی بت کو سجدہ کریں! اور یہ توحید تو فطرتِ انسانی کے اندر موجود ہے‘ وہ جو ’’اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؟ قَالُوۡا بَلٰی !‘‘ کا عہد کر کے آئے تھے ا س کے ا ثرات اس حیاتِ دُنیوی میں موجود تھے. یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے کبھی بھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا‘کبھی شرک کا ارتکاب نہیں کیا‘ کبھی بدکاری نہیں کی. گویا ایک پاک طینت‘ صاف باطن شخصیت ہیں. یعنی اندر سے فطرت بھی پاک اور سلیم ‘اور کردار و اخلاق بھی بہت عمدہ. تو ایسے شخص کے سامنے جب نبی کی دعوت آتی ہے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی تاخیر ہو. حضرت ابوبکر ؓ مقامِ صدیقیت میں اُمت میں سب سے بلند مرتبہ ہیں اور صدیق ثانی حضرت عثمان ؓ ہیں. حضرت ابوبکر ؓ کی دعوت سے جو لوگ ایمان لائے ان میں سرفہرست حضرت عثمان ؓ ہیں.

دوسری طرف حضرت عمر اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہماہیں ‘ جن کا مزاج حضراتِ ابوبکر و عثمان رضی اللہ عنہما سے مختلف ہے. یہی وجہ ہے کہ مکہ میں محمد رسول اللہ کی دعوت کو چھ برس بیت جاتے ہیں اور اِن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کہ محمد کیا کہہ رہے ہیں. میں نے دو مثالیں اس لیے دی ہیں کہ حضرت عمر ؓ کی تو حضور کے ساتھ کوئی ایسی قرابت داری نہیں تھی‘ ہو سکتا ہے کہ کچھ اور بھی عوامل کارفرما ہوں‘ لیکن حضرت حمزہ ؓ تو حضور کے چچا ہیں‘ خالہ زاد بھائی ہیں‘ دودھ شریک بھائی ہیں ‘ ساتھ کے کھیلے ہوئے ہم جولی ہیں اور حضور کے ساتھ انتہائی محبت کرتے ہیں. بتایئے کون سا حجاب ہے؟ کیوں نہیں ایمان لائے چھ برس تک؟اس لیے کہ اُدھر توجہ ہی نہیں ہے. سیر و شکار سے فرصت نہیں ہے‘ کئی کئی دن تک تیر کمان لے کر صحرا کے اندر شکار میں مصروف ہیں. غور و فکر اور سوچ بچار والا مزاج ہی نہیں ہے. ادھر توجہ ہی نہیں ہے کہ یہ کائنات کیا ہے‘ اس کا بنانے والا کون ہے اور اس زندگی کا مقصد کیا ہے؟ صرف عدمِ توجہی ہے‘ورنہ حضور 
سے عناد ہونے کا توکوئی سوال ہی نہیں ہے.کوئی منفی عامل سرے سے موجود ہی نہیں ہے سوائے عدم توجہی کے. چنانچہ چھ برس بعد ایمان لائے ہیں اور وہ بھی جذباتی طور پر. شکار سے واپس آئے تو کنیز (حضرت فوزیہ رضی اللہ عنہا) نے کہا کہ آج تو ابوجہل نے آپ کے بھتیجے (محمد )پر بڑی زیادتی کی ہے‘ بہت گستاخی کے ساتھ پیش آیا ہے. پس وہ جو دل میں محبت تھی اس نے جوش مارا اور سیدھے ابوجہل کے پاس پہنچے جہاں وہ اپنی پارٹی کو لے کر بیٹھا ہوا تھا‘ جاتے ہی کمان اس کے سر پر دے ماری جس سے سرپھٹ گیا. اس سے کہنے لگے کہ تمہاری یہ ہمت کہ تم نے میرے بھتیجے کے ساتھ یہ معاملہ کیا! اور پھر اسی وقت کہا کہ اچھا میں اُس پر ایمان لاتا ہوں‘ آؤ مقابلہ کرو! یہ شان ہے حضرت حمزہ ؓ ‘ کے ایمان کی. تو اس کو ذرا اچھی طرح سمجھئے . اِن دو شخصیتوں کا فرق اگر نہیں سمجھیں گے‘ اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے مختلف انسانوں کے مختلف مزاج بنائے ہیں ان کا جب تک فہم و شعور نہ ہو گا یہ آیت سمجھ میں نہیں آئے گی‘ اور یہ کہ صدیقیت اور شہادت کسے کہتے ہیں‘ یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی. شہید کے معنی صرف مقتول فی سبیل اللہ ہی ذہن میں رہ جائیں گے اور یہ جو قرآن مجید کے اصل حقائق و معارف ہیں ان سے محرومی رہے گی.

یہی معاملہ حضرت عمر ؓ کا ہے. ان کے ہاں تو معاملہ اس سے آگے بڑھ کر عصبیت ِجاہلی کا تھا کہ محمد ( ) تو ہمارے آبائی دین اور آبائی عقائد کی نفی کر رہے ہیں‘ یہاں تک کہ بالآخر وہ دشمنی اس انتہا کو پہنچ گئی کہ گھر سے تلوار لے کر یہ فیصلہ کر کے نکلے ہیں کہ آج میں ان کا کام تمام کر دوں گا. کفارِ مکہ درحقیقت یہ دیکھ رہے تھے کہ بنوہاشم محمد( ) کی پشت پناہی کر رہے ہیں‘ اب اگر ہم نے محمد ( ) کو کوئی گزند پہنچا دیا تو بنو ہاشم ان کے انتقام کے لیے کھڑے ہو جائیں گے‘ اس طرح ہمارا آپس کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا‘ عرب کے اندر ہماری حیثیت مجروح ہو جائے گی‘ بلکہ ہماری قبائلی جنگ شروع ہو جائے گی. ان کے لیے رکاوٹ صرف یہی تھی. لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اب تو پانی سر سے گزر رہا ہے‘ گھر گھر میں لڑائی ہو رہی ہے‘ بھائی بھائی سے کٹ گیا ہے‘ بیوی شوہر سے جدا ہو رہی ہے ‘ شوہر بیوی سے کٹ گیا ہے‘ والدین سے 
اولاد علیحدہ ہو گئی ہے تو ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق عمرؓ بن خطاب نے فیصلہ کر لیا کہ اب تو جو ہو سو ہو‘ میں تو انہیں قتل کر دوں گا. چنانچہ سیف بدست نکل کھڑے ہوئے.

راستے میں حضرت حذیفہ ؓ بن عتبہ ملے‘ وہ ایمان لا چکے تھے‘ لیکن عمر ؓ کو معلوم نہیں تھا.انہوں نے کہا کہ عمر ؓ کیا بات ہے؟ اتنے جوش و جلال کے ساتھ کہاں چلے؟ کہا کہ میں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ آج یہ جھگڑا ختم کر کے رہوں گا‘ میں محمد ( ) کو قتل کرنے جارہا ہوں .انہوں نے بڑی حکمت سے یہ کہہ کر ان کا رخ موڑ دیا کہ تمہارے تو اپنے بہن اوربہنوئی ایمان لا چکے ہیں! اب غصے میں آگ بگولہ ہو کر اپنی حقیقی بہن فاطمہ بنت خطاب اور بہنوئی سعید بن زید ( رضی اللہ عنہما) کے ہاں پہنچے اور غصہ سے دروازہ کھٹکھٹایا. وہ اندر قرآن مجید پڑھ رہے تھے. وہاں حضرت خباب بن اَرت رضی اللہ عنہ انہیں قرآن پڑھانے کے لیے آئے ہوئے تھے. سورۂ طٰہٰ کی آیات نازل ہوئی تھیں اور وہ آ کر انہیں سنا رہے تھے. عمرؓ کی آواز سن کر انہوں نے حضرت خباب ؓ کو تو چھپا لیا . عمر ؓ نے گھر میں داخل ہو کر بہنوئی حضرت سعید رضی اللہ عنہ کو مارنا شروع کیا. بہن درمیان میں آئیں تو اُن کو بھی ایک ایسا تھپڑ لگایا کہ چہرہ لہولہان ہو گیا. لیکن بہن کی زبان سے یہ جملہ نکلا : عمر ؓ ! چاہے تم ہمیں جان سے مار دو‘ اب ہم اس دین کو چھوڑیں گے نہیں جسے ہم نے اختیار کیا ہے. ان کا یہی جملہ تھا جو عمر ؓ بن خطاب کے انقلاب کی وجہ بنا ؏ 

دگرگوں کرد تقدیر عمر را!

عمر ؓ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ صنف نازک میں یہ ہمت اور یہ حوصلہ کیونکر پیدا ہوا! یوں سمجھئے کہ اندر توسب کچھ تھا‘ اوپر خول آیا ہوا تھا. بس اس خول کے اندر سوراخ ہو گیا‘ لیکن کسی دلیل و منطق سے نہیں‘ غور وفکر سے نہیں‘ یہ ہوا ہے جذباتی طور پر 
(emotionally) . تو اس اُمت کے دو عظیم ترین شہداء ہیں حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما. اور اِس اُمت کے دو عظیم ترین صدیق ہیں حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما. یہ مضمون معارفِ قرآن حکیم کا ایک اہم باب ہے. اس پر بدقسمتی سے جتنی توجہ ہونی چاہیے تھی میرے علم کی حد تک اتنی توجہ نہیں ہوئی.