دوسری طرف حضرت عمر اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہماہیں ‘ جن کا مزاج حضراتِ ابوبکر و عثمان رضی اللہ عنہما سے مختلف ہے. یہی وجہ ہے کہ مکہ میں محمد رسول اللہﷺ کی دعوت کو چھ برس بیت جاتے ہیں اور اِن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کہ محمدﷺ کیا کہہ رہے ہیں. میں نے دو مثالیں اس لیے دی ہیں کہ حضرت عمر ؓ کی تو حضورﷺ کے ساتھ کوئی ایسی قرابت داری نہیں تھی‘ ہو سکتا ہے کہ کچھ اور بھی عوامل کارفرما ہوں‘ لیکن حضرت حمزہ ؓ تو حضورﷺ کے چچا ہیں‘ خالہ زاد بھائی ہیں‘ دودھ شریک بھائی ہیں ‘ ساتھ کے کھیلے ہوئے ہم جولی ہیں اور حضورﷺ کے ساتھ انتہائی محبت کرتے ہیں. بتایئے کون سا حجاب ہے؟ کیوں نہیں ایمان لائے چھ برس تک؟اس لیے کہ اُدھر توجہ ہی نہیں ہے. سیر و شکار سے فرصت نہیں ہے‘ کئی کئی دن تک تیر کمان لے کر صحرا کے اندر شکار میں مصروف ہیں. غور و فکر اور سوچ بچار والا مزاج ہی نہیں ہے. ادھر توجہ ہی نہیں ہے کہ یہ کائنات کیا ہے‘ اس کا بنانے والا کون ہے اور اس زندگی کا مقصد کیا ہے؟ صرف عدمِ توجہی ہے‘ورنہ حضورﷺ سے عناد ہونے کا توکوئی سوال ہی نہیں ہے.کوئی منفی عامل سرے سے موجود ہی نہیں ہے سوائے عدم توجہی کے. چنانچہ چھ برس بعد ایمان لائے ہیں اور وہ بھی جذباتی طور پر. شکار سے واپس آئے تو کنیز (حضرت فوزیہ رضی اللہ عنہا) نے کہا کہ آج تو ابوجہل نے آپ کے بھتیجے (محمدﷺ )پر بڑی زیادتی کی ہے‘ بہت گستاخی کے ساتھ پیش آیا ہے. پس وہ جو دل میں محبت تھی اس نے جوش مارا اور سیدھے ابوجہل کے پاس پہنچے جہاں وہ اپنی پارٹی کو لے کر بیٹھا ہوا تھا‘ جاتے ہی کمان اس کے سر پر دے ماری جس سے سرپھٹ گیا. اس سے کہنے لگے کہ تمہاری یہ ہمت کہ تم نے میرے بھتیجے کے ساتھ یہ معاملہ کیا! اور پھر اسی وقت کہا کہ اچھا میں اُس پر ایمان لاتا ہوں‘ آؤ مقابلہ کرو! یہ شان ہے حضرت حمزہ ؓ ‘ کے ایمان کی. تو اس کو ذرا اچھی طرح سمجھئے . اِن دو شخصیتوں کا فرق اگر نہیں سمجھیں گے‘ اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے مختلف انسانوں کے مختلف مزاج بنائے ہیں ان کا جب تک فہم و شعور نہ ہو گا یہ آیت سمجھ میں نہیں آئے گی‘ اور یہ کہ صدیقیت اور شہادت کسے کہتے ہیں‘ یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی. شہید کے معنی صرف مقتول فی سبیل اللہ ہی ذہن میں رہ جائیں گے اور یہ جو قرآن مجید کے اصل حقائق و معارف ہیں ان سے محرومی رہے گی.
یہی معاملہ حضرت عمر ؓ کا ہے. ان کے ہاں تو معاملہ اس سے آگے بڑھ کر عصبیت ِجاہلی کا تھا کہ محمد (ﷺ ) تو ہمارے آبائی دین اور آبائی عقائد کی نفی کر رہے ہیں‘ یہاں تک کہ بالآخر وہ دشمنی اس انتہا کو پہنچ گئی کہ گھر سے تلوار لے کر یہ فیصلہ کر کے نکلے ہیں کہ آج میں ان کا کام تمام کر دوں گا. کفارِ مکہ درحقیقت یہ دیکھ رہے تھے کہ بنوہاشم محمد(ﷺ ) کی پشت پناہی کر رہے ہیں‘ اب اگر ہم نے محمد (ﷺ ) کو کوئی گزند پہنچا دیا تو بنو ہاشم ان کے انتقام کے لیے کھڑے ہو جائیں گے‘ اس طرح ہمارا آپس کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا‘ عرب کے اندر ہماری حیثیت مجروح ہو جائے گی‘ بلکہ ہماری قبائلی جنگ شروع ہو جائے گی. ان کے لیے رکاوٹ صرف یہی تھی. لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اب تو پانی سر سے گزر رہا ہے‘ گھر گھر میں لڑائی ہو رہی ہے‘ بھائی بھائی سے کٹ گیا ہے‘ بیوی شوہر سے جدا ہو رہی ہے ‘ شوہر بیوی سے کٹ گیا ہے‘ والدین سے اولاد علیحدہ ہو گئی ہے تو ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق عمرؓ بن خطاب نے فیصلہ کر لیا کہ اب تو جو ہو سو ہو‘ میں تو انہیں قتل کر دوں گا. چنانچہ سیف بدست نکل کھڑے ہوئے.
راستے میں حضرت حذیفہ ؓ بن عتبہ ملے‘ وہ ایمان لا چکے تھے‘ لیکن عمر ؓ کو معلوم نہیں تھا.انہوں نے کہا کہ عمر ؓ کیا بات ہے؟ اتنے جوش و جلال کے ساتھ کہاں چلے؟ کہا کہ میں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ آج یہ جھگڑا ختم کر کے رہوں گا‘ میں محمد (ﷺ ) کو قتل کرنے جارہا ہوں .انہوں نے بڑی حکمت سے یہ کہہ کر ان کا رخ موڑ دیا کہ تمہارے تو اپنے بہن اوربہنوئی ایمان لا چکے ہیں! اب غصے میں آگ بگولہ ہو کر اپنی حقیقی بہن فاطمہ بنت خطاب اور بہنوئی سعید بن زید ( رضی اللہ عنہما) کے ہاں پہنچے اور غصہ سے دروازہ کھٹکھٹایا. وہ اندر قرآن مجید پڑھ رہے تھے. وہاں حضرت خباب بن اَرت رضی اللہ عنہ انہیں قرآن پڑھانے کے لیے آئے ہوئے تھے. سورۂ طٰہٰ کی آیات نازل ہوئی تھیں اور وہ آ کر انہیں سنا رہے تھے. عمرؓ کی آواز سن کر انہوں نے حضرت خباب ؓ کو تو چھپا لیا . عمر ؓ نے گھر میں داخل ہو کر بہنوئی حضرت سعید رضی اللہ عنہ کو مارنا شروع کیا. بہن درمیان میں آئیں تو اُن کو بھی ایک ایسا تھپڑ لگایا کہ چہرہ لہولہان ہو گیا. لیکن بہن کی زبان سے یہ جملہ نکلا : عمر ؓ ! چاہے تم ہمیں جان سے مار دو‘ اب ہم اس دین کو چھوڑیں گے نہیں جسے ہم نے اختیار کیا ہے. ان کا یہی جملہ تھا جو عمر ؓ بن خطاب کے انقلاب کی وجہ بنا ؏
دگرگوں کرد تقدیر عمر را!
عمر ؓ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ صنف نازک میں یہ ہمت اور یہ حوصلہ کیونکر پیدا ہوا! یوں سمجھئے کہ اندر توسب کچھ تھا‘ اوپر خول آیا ہوا تھا. بس اس خول کے اندر سوراخ ہو گیا‘ لیکن کسی دلیل و منطق سے نہیں‘ غور وفکر سے نہیں‘ یہ ہوا ہے جذباتی طور پر (emotionally) . تو اس اُمت کے دو عظیم ترین شہداء ہیں حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما. اور اِس اُمت کے دو عظیم ترین صدیق ہیں حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما. یہ مضمون معارفِ قرآن حکیم کا ایک اہم باب ہے. اس پر بدقسمتی سے جتنی توجہ ہونی چاہیے تھی میرے علم کی حد تک اتنی توجہ نہیں ہوئی.