اس سلسلے میں چند اور باتیں وضاحت طلب ہیں. ہمارے تصوف کے حلقوں میں عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ ’’ولایت‘‘ ’’نبوت‘‘ سے افضل ہے . ظاہر کے اعتبار سے یہ بات بالکل غلط ہے ‘ البتہ اس کے اندر بھی حقیقت کا ایک عنصر ہے‘ اگرچہ اصطلاحات غلط استعمال ہو رہی ہیں. ان کے ہاں دو نسبتیں ’’نسبت ولایت‘‘ اور ’’نسبت ِنبوت‘‘ مستقلاً مذکور ہیں .دراصل مقامِ’’ نبوت‘‘ ولایت‘ خلت اور صدیقیت سب سے بلند ترین مقام ہے. لغوی اعتبار سے نبوت کی اصل یا تو ’’نَـبَــأٌ‘‘ ہے ‘جس سے ’’نبی‘‘ کا مفہوم ہے ’’خبر دینے والا‘‘ اور یا پھر ’’نَـبْـوٌ‘‘ ہے جس کے معنی بلندی کے ہیں. تو اس سے اُونچا کوئی مقام نہیں ہے. یہ بھی جان لینا چاہیے کہ رسالت‘ نبوت کے ساتھ نتھی ہے اور نبوت رسالت سے افضل ہے. عام طور پر ہمارا تصور یہ ہے کہ رسالت نبوت سے افضل ہے. میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ رسالت مقامِ نزول میں ہے اور نبوت مقامِ عروج میں ہے. اصل حیثیت مقامِ نبوت کی ہے‘لیکن جب کسی نبی کو کسی معین جگہ پر بھیجا جاتا ہے تو اسے رسول بنا کر بھیجا جاتا ہے‘ جیسے حضرت لوط علیہ السلام کو سدوم اور عامورہ کی بستیوں کو خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا‘ حضرت ہود علیہ السلام کو قومِ عاد کی طرف بھیجا گیا‘ حضرت صالح علیہ السلام کوقومِ ثمود کی طرف بھیجا گیا‘ حضرت موسٰی علیہ السلام کو فرعون اور آلِ فرعون کی طرف معین کر کے بھیجا گیا. تو یہ رسالت دراصل ’’مقامِ نزول‘‘ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نبوت رسالت سے افضل ہے.

نبوت کا رشتہ درحقیقت ولایت ‘ خلّت اور صدیقیت سے ہے .اور وہ کس اعتبار سے ہے‘ اسے جان لینا ضروری ہے. یہ بڑے اہم مضامین ہیں. یہ بات پوری اُمت کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ نبوت عام ہے اور رسالت خاص ہے .یعنی ہر رسول تو لازماً نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے. انہی چیزوں کی وجہ سے یہ تصور ذہن میں قائم ہو گیا کہ رسالت نبوت سے افضل ہے‘ لیکن درحقیقت یہ افضل نہیں ہے‘ بلکہ ان میں خاص اور عام کی نسبت ہے. حضرت یوسف علیہ السلام نبی تھے‘ لیکن رسول نہیں تھے.انہوں نے نہ تو اپنے آپ کو ماننے کی دعوت دی اور نہ کوئی مطالبہ کیا کہ مجھ پر ایمان لاؤ. حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہِ مصر کے خواب کی درست تعبیر بتائی‘ جس کی بنا پر وہ جیل سے رہا ہوئے ‘اور پھر انہوں نے اس قوم کو قحط سے بچنے کی تدبیر بتائی جو اُن پر آنے والا تھا تو شاہِ مصر نے آپؑ کو وزارتِ مالیات جیسا بڑا عہدہ پیش کیا‘ جسے آپؑ نے قبول کر لیا‘ لیکن بادشاہ تو بہرحال وہی شخص تھا .قرآن مجید سے اس کے ایمان کا ثبوت بھی نہیں ملتا‘ البتہ وہ نیک انسان تھا. جیل کے لوگوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ’’صدیق‘‘ کہہ کر پکارا تھا: 
یُوۡسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیۡقُ (یوسف:۴۶’’یوسف‘ اے صدیق!‘‘ 

نبی اپنی ذاتی شخصیت کے اندر ولایت کے درجے پر فائز ہوتا ہے اور جب اس پر اللہ کی طرف سے وحی اترتی ہے تو اسے نبوت سے سرفراز کر دیا جاتا ہے. ہمارے آج کل کے قلندر قسم کے لوگوں سے قطع نظر ‘جو شخص واقعتا اللہ کا دوست‘ خلیل ‘ وفادار اور مخلص ہے‘ اس پراگر وحی آ جائے تو وہ نبی ہے‘ اور اگر وحی نہیں ہے تو وہ بس اللہ کا ولی اور برگزیدہ ہے. حضرت عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ اور حضرت یوسف علیہ السلام میں یہی تو فرق ہے کہ حضرت یوسف ؑپر وحی ٔ نبوت نازل ہوئی. ورنہ شخصیت کے اجزائے ترکیبی جو عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ کے ہیں وہی حضرت یوسف علیہ السلام کے ہیں. نبی سیرت و کردار کے حوالے سے ایک مکمل انسان ہوتا ہے‘ وہ لوگوں کو حق کی طرف دعوت بھی دے رہا ہوتا ہے ‘لیکن وہ اللہ کی طرف سے اس طرح سے مامور ہو کر نہیں آیا ہوتاکہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور 
میری اطاعت قبول کرو. جبکہ رسول تو لوگوں سے جا کر کہتا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو اور میرا حکم مانو‘ میری اطاعت کرو‘مجھے ماننا پڑے گا! سور ۃ الشعراء میں تمام رسولوں کی یہی دعوت نقل ہوئی ہے کہ: اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ ﴿۱۰۷﴾ۙفَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۱۰۸﴾ۚ ’’یقینا میں تمہاری طرف ایک رسولِ امین (مبعوث ہوا) ہوں‘ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو!‘‘ تو یہ رسالت ہے.