یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ چونکہ نبوت عورتوں کو نہیں دی گئی اس لیے کہ یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے لہذا خواتین کے لیے سب سے اونچا مقام صدیقیت ہے.حضرت مریم سلامٌ علیہا کے بارے میں قرآن کہتا ہے : اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ ’’ان (حضرت عیسٰی ؑ) کی والدہ (حضرت مریمؑ) صدیقہ تھیں.‘‘ 

سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا اِس اُمت میں بھی کوئی صدیقہ ہے؟ دیکھئے عام طور پر تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ لفظ ’’صدیقہ‘‘ استعمال ہوتا ہے‘ لیکن درحقیقت حضرت 
عائشہ رضی اللہ عنہا عمر کے اعتبار سے دوسری نسل سے تعلق رکھتی ہیں‘ اگرچہ آپؓ ‘ حضور کی زوجہ محترمہ ہونے کی حیثیت سے اُمّ المومنین ہیں. جیسے حضرت علی اور ابوبکر و عمرو عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مراتب میں فرق و تفاوت ہے. حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرات ابوبکر وعمر و عثمان رضوان اللہ علیہم سے تقابل کرنا درحقیقت قیاس مع الفارق کے مترادف ہے. ان کی تو نوعیت ہی مختلف ہے. حضرات ابوبکر و عمر وعثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور کے تقریباً ہم عمر لوگوں میں سے ہیں. حضرت ابوبکر آپ سے دو اڑھائی برس چھوٹے ہیں‘ حضرت عمر چھ برس اور حضرت عثمان پانچ برس چھوٹے ہیں. یہ تو آپؐ کے برابر کے ہیں اور آپ کے ساتھی اور دست و بازو ہیں. کسی قبیلے یا قوم کے اندر ایسے لوگ ’’مَلَأ ‘‘ کہلاتے ہیں اور پٹھانوں کے ہاں ’’مشران‘‘ کہلاتے ہیں. جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تو دوسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور حضور کے مقابلے میں عمر کا بہت فرق و تفاوت ہے‘ اگرچہ اپنی شخصیت کے اعتبار سے بہت اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں. حضور کے بعد صحابہ کرام میں ambivert حضرت علی ؓ کی شخصیت ہے. توجامعیت کے اعتبار سے اُن کا مقام اور ہے ‘لیکن کمیت کے اعتبار سے حضرت علی ؓ خلفاء ثلاثہ کے آس پاس بھی نہیں آتے‘ اگرچہ ترتیب میں چوتھے ہیں.

تو بالکل اسی طرح کا معاملہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکا ہے. ان کا مقام بہت بلند ہے ‘ فقہاء صحابہ میں سے ہیں‘ حضور کی محبوب زوجۂ محترمہ ہیں‘ لیکن صدیقیت کبریٰ کے مقام پر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا فائز ہیں .اسی لیے ان کے نام کے ساتھ لفظ ’’کبریٰ‘‘ لگا ہوا ہے. جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور کے قدموں میں اپنی ساری دولت نچھاور کر دی اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے بھی اپنی پوری دولت حضور کے قدموں میں ڈال دی کہ جس طرح چاہیں اور جہاں چاہیں استعمال کیجیے. حضور اکرم کی تصدیق میں جیسے حضرت ابوبکرؓ نے ایک لحظہ کا توقف بھی نہیں کیا ایسے ہی حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے بھی لحظہ بھر کے توقف کے بغیر آپؐ کی تصدیق کی. بلکہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ حضور پرپہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکرؓ ہیں یا حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ ! میں تو دعوے سے کہتا ہوں کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ ہیں. اس لیے کہ غارِ حرا سے اتر کر حضور پر جو خوف کی کیفیت تھی اور لرزہ طاری تھا‘ تو یہ پہلا تجربہ آپؐ نے اپنی زوجہ محترمہ کو ہی بتایا ہے. کیسے ممکن ہے کہ آپ نے جا کر پہلے اپنے کسی دوست یا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بتایا ہو. بلکہ آپؐ زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِـیْ کہتے ہوئے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے تسلی دی کہ نہیں‘ اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا. تو درحقیقت اُمت کی عورتوں میں سب سے اونچا مقام حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہاکا ہے. حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی ہم پلہ شخصیت وہی ہیں.

سورۃ الحدید کے چوتھے حصے میں جو سلوکِ قرآنی بیان ہوا ہے‘ اس کی وضاحت کے لیے یہ ڈائیگرام ملاحظہ کیجیے. صالحین‘ صدیقین ‘ شہداء اور نبوت و رسالت جیسی اصطلاحات پر اگرچہ کافی گفتگو ہو چکی ہے‘ لیکن میں چاہتا ہوں کہ بات مزید واضح ہو جائے‘ اس لیے کہ یہ وہ مضامین ہیں کہ لوگوں نے شاذ ہی ان سے بحث کی ہے: (ڈایا گرام اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں) 
اس چارٹ کو سمجھنے کے لیے نیچے سے اوپر چلیے.آیت نمبر ۱۶ ہے:

اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ۙ وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُ فَطَالَ عَلَیۡہِمُ الۡاَمَدُ فَقَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۱۶﴾ 
اس آیت کا حاصل ہے : ’’نسلی‘ روایتی‘ غافل اور بے عمل مسلمانوں کو تنبیہہ اور ملامت. خاص طو رپر سابقہ اُمت ِمسلمہ کے انجام سے سبق حاصل کرنے کی ترغیب.‘‘

پھراگر اپنے باطن میں جھانکو اور محسوس کرو کہ حقیقت ایمان تو ہمیں حاصل نہیں تو مایوس نہ ہو جاؤ . 
اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۷﴾ گویا اس آیت کا حاصل ہے : ’’اصلاحِ حال اور آمادۂ عمل ہونے کی ترغیب اور حوصلہ افزائی‘‘. اس میں حوصلہ افزائی بھی ہے‘ ترغیب بھی ہے‘ تشویق بھی ہے کہ کمر ہمت کسو‘ ارادہ کرو!

اس کا جو نتیجہ ہے وہ اب تیسری لائن میں ہے : ’’اصلاح ِ حال کا ارادہ اور عمل کا عزمِ مصمم‘‘. ارادہ کے بعد بریکٹ میں لفظ 
’’مُرِیْد‘‘ لکھا ہے.اصل میں یہ اَرَادَ‘ یُرِیْدُ‘ اِرَادَۃً (باب افعال) سے اسم الفاعل ہے‘ یعنی ’’ارادہ کر لینے والا‘‘. گویا کہ ان دونوں آیات (۱۶۱۷) کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص کے اندر ارادہ اور عمل کا عزمِ مصمم پیدا ہوجائے.میں دعا کرتا ہوں کہ جو حضرات بھی اس حلقہ ٔدرس میں شرکت فرما رہے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ نے اس کیفیت تک پہنچا دیا ہو اور وہ ایک عزمِ مصمم کر لیں کہ دین کے جو بھی تقاضے اور مطالبات ہیں وہ ان کو ادا کریں گے. 

اب اس سے اوپر آیئے! آیت ۱۸ کے الفاظ ہیں : 
اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَ الۡمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقۡرَضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَ لَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿۱۸﴾ اس آیت کا حاصل ہے : ’’کثرتِ صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے دل سے دنیا اور مال کی محبت کا ازالہ‘‘.یہی نجاست ہے‘ اور اس کو اگر دور نہیں کریں گے تو قربِ الٰہی کی منازل طے نہیں ہو سکیں گی . اسی کو میں تعبیر کرتا ہوں کہ یہ بریک ہے‘ اگر یہ نہیں کھلے گا تو آگے ترقی اور پیش رفت نہیں ہو سکتی.
جو لوگ اس پر کاربند ہو جائیں وہ گویا زمرۂ ’’صالحین‘‘ میں شامل ہو گئے. یہ صالحین وہ لفظ ہے کہ جو سورۃ النساء کی آیت ۶۹ میں گویا 
base line کا کام دیتا ہے: 

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ 
یعنی جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت پر کاربند ہو گیا اسے معنوی معیت اور رفاقت حاصل ہو جائے گی ان کی جن پر اللہ کا انعام ہوا ہے‘ یعنی انبیاء‘ صدیقین‘ شہداء اور صالحین. اور کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں!تو جو شخص ارادہ کر چکا ہو اور ارادہ کر کے اپنی کشت ِقلب میں انفاق اور صدقہ و خیرات کا ہل چلا لے وہ صالحین میں شامل ہو جائے گا. اگر ارادہ کرنے کے باوجود معطل رہ گیا‘ عملا ً کوئی پیش قدمی نہیں کی تو اُس کا وہ مقام نہیں ہے. اسی لیے چوتھی لائن میں علیحدہ سے واضح کیا ہے کہ صالحین وہ ہیں کہ جو کثرتِ صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے دل سے دنیا اور مال کی محبت کا ازالہ کریں.

اب اس سے اوپر دو شاخیں بنائی گئی ہیں. یہ وہ دو اَقسام ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی عظیم اکثریت کو پیدا کیا ہے. تیسری قسم یعنی 
ambiverts بہت شاذ ہوتے ہیں. لوگ عام طور پر یاتوبیروں بین(extroverts) ہوتے ہیں یا دروں بین (introverts). دا ہنی طرف introverts ہیں: ’’غور و فکر اور سوچ بچار کے عادی‘ اور زندہ اخلاقی حس کے حامل لوگ‘‘. ان کے اندر سلامتی فکر بھی ہے‘ سلامتی عقل بھی ہے اور سلامتی فطرت بھی ہے. ان کی اخلاقی حس بھی زندہ ہے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی کا امتیاز تو فطرتِ انسانی میں ودیعت کر دیا ہے: وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ (الشمس) تو یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو مرتبہ ’’صدیقیت‘‘ تک رسائی حاصل ہو جائے گی. یہ انبیاء سے نیچے‘ سب سے اونچا مقام ہے جس تک انسان رسائی حاصل کر سکتا ہے.

دوسری طرف دوسرے قسم کے لوگ ہیں : ’’بھاگ دوڑ اور سیروشکار کے عادی 
لوگ‘‘. یہ extroverts ہیں. انبیاء کرامؑ میں سے آپ حضرت موسیٰ اور حضرت اسماعیل (علیہما الصلوٰۃ والسلام) کو ذہن میں رکھیے اور صحابہ کرام میں سے حضرات عمر اور حمزہ (رضی اللہ عنہما) کو سامنے رکھئے. ان کا یہی مزاج تھا. حضرت عمر ؓ ‘ تو پہلوان قسم کے آدمی تھے‘اور انہیں غور و فکر اور سوچ بچار سے طبعی مناسبت بھی نہیں تھی. یہی وجہ ہے کہ آبائی حمیتیں اور آبائی عصبیتیں ان کے دل میں بڑی گہری ا تری ہوئی تھیں. اسی لیے مسلمانوں سے دشمنی تھی‘ حضور سے بھی سخت ناراضگی تھی‘ یہاں تک کہ انتہائی فیصلہ کر لیاتھا کہ اب تو میں چراغِ نبوت کو گل کر کے ہی گھر واپس آؤں گا. حضرت حمزہ ؓ حالانکہ قرابت میں حضور سے قریب ترین ہیں‘ نہایت محبت بھی کرتے ہیں‘ عزیز رکھتے ہیں‘ محبت ہی کے جوش مارنے کی وجہ سے تو ایمان لائے ہیں‘ لیکن آنحضور کی دعوت کو چھ برس بیت گئے اور انہیں اپنے سیر و شکار سے فرصت ہی نہیں ہے‘ ادھر توجہ ہی نہیں ہے. تو یہ ہیںextroverts کی مثالیں. 
دوسری طرف 
introverts کی مثالیں دیکھئے. جیسے کہ میں نے عرض کیا‘ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معاملہ غور و فکر اور سوچ بچار کے حوالے سے ممتاز نظر آتا ہے : وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ آسمانوں اور زمین پر غور و فکر ہو رہا ہے‘ ہستی باری تعالیٰ کے بارے میں سوچ بچار ہے اور پھر سلیم الفطرت ہیں. اس ضمن میں دوسری جو مثال قرآن مجید میں نمایاں ہے وہ حضرت ادریس علیہ السلام کی ہے.جبکہ صحابہ کرام میں سے حضرت ابوبکر الصدیق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہمااور خواتین میں سے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا‘ یہ وہ لوگ ہیں جو صدیقیت کے مزاج کے حامل ہیں. چنانچہ مرتبہ ’’صالحیت‘‘ کے بعد جو ارتقاء ہو گا‘ انسان سلوک کی منازل میں آگے بڑھے گا ‘ ترقی ہو گی تو افتادِ طبع کے اعتبار سے یہ دو لائنیں علیحدہ ہو جائیں گی. یہ نسبت واضح ہو گئی اس آیت کی طرف اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَ الۡمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقۡرَضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَ لَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿۱۸﴾ . 

اس کے بعد اگرچہ یہاں لفظ ’’ثُـمَّ‘‘ موجود نہیں ہے‘لیکن میں ’’القرآنُ یفسِّر بعضُہ بعضًا‘‘ کے اصول پر سورۃ البلد کے حوالے سے بتا چکا ہوں کہ آیت ۱۸‘ اور آیت ۱۹ کے درمیان ’’ثُـمَّ‘‘ کو محذوف سمجھئے‘ مقدر مانیے! وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ یعنی جب یہ کام (صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ) کر کے لوگ آگے بڑھیں گے‘ ان کے دل سے دنیا اور مال کی محبت کا ازالہ ہو جائے گا ‘ بریک کھل جائے گا‘ ترقی ہو گی‘ ارتقا ہو گا‘ جو اعلیٰ معیارات اور مقامات ہیں ان تک رسائی ہو گی تو انسان یا صدیقین کے مقام تک پہنچ سکے گا یا شہداء کے مقام تک.

اس سے اوپر کا جو معاملہ ہے وہ میں نے مزید واضح کیا ہے کہ نبوت اوپر ہے‘ رسالت نیچے ہے‘ کیونکہ میں ان لوگوں سے متفق ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ نبوت کا رتبہ رسالت سے اونچا ہے‘ بایں معنی کہ نبوت درحقیقت مقامِ عروج میں اور رسالت مقامِ نزول میں ہے. نبوت کا رُخ اللہ کی طرف ہے اور رسالت کا رُخ بندوں کی طرف ہے. اس اعتبار سے میں نے نبوت کو رسالت سے اوپر رکھا ہے. لیکن اصل میں صدیقیت کی اصطلاح رسالت ہی کے لفظ سے واضح ہوتی ہے. یعنی جیسے ہی رسول کی دعوت کسی صدیق کا مزاج رکھنے والے شخص کے کان میں پہنچے گی وہ فوراً لبیک کہے گا‘ اسے کوئی دیر نہیں لگے گی‘ اس لیے کہ یہ اُس کی سلامتی عقل اور سلامتی فطرت کا تقاضا ہے. وہ خود پہلے سے گویاتیار ہے. میں تو اِس کی مثال دیا کرتا ہوں جیسے کوئی شخص وضو کر کے گھر میں بیٹھا ہو اور اذان کی آواز آئے تو یقینا وہ مسجد کا رُخ کرے گا. صدیقین کی شخصیت میں بالکل اس طرح کی آمادگی پہلے سے موجود ہوتی ہے. 

دوسری قسم کے لوگوں یعنی شہداء کو اگرچہ قبولِ حق میں دیر تو لگ جاتی ہے‘ جیسے حضرات عمر اور حمزہ رضی اللہ عنہماکو بھی چھ سال لگ گئے‘ لیکن چونکہ وہ فعال اور طاقتور قسم کے لوگ تھے‘ ان کی ہیبت تھی‘ لہذا ان سے مسلمانوں کو تقویت حاصل ہوئی. حالانکہ اس سے پہلے صدیقین ہی کی جماعت تھی جو حضور پر ایمان لائی‘لیکن شہداء اپنی فعالیت کی وجہ سے آگے نکل جاتے ہیں. اس لیے کہ اپنی شخصیت کے ایک خاص مزاج کے اعتبار سے وہ قوی ہوتے ہیں. چنانچہ حضرت عمر اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہما کے ایمان لانے کے بعد مسلمان 
دھڑلے کے ساتھ کھلم کھلا حرم میں نمازیں پڑھنے لگے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب ہجرت کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو چھپ کر نکلتے تھے کہ کسی کو خبر نہ ہو‘ خواہ مخواہ کوئی مزاحم ہو گا یا کسی اور طرح کی مشکل پیش آ جائے گی. لیکن حضرت عمر ؓ کی شان یہ ہے کہ جب ہجرت کے لیے نکلے تو سب کے سامنے حرم میں آ کر دو رکعت نماز پڑھی اور اعلان کیا کہ میں ہجرت کر کے جا رہا ہوں اور جس کا ارادہ ہو کہ اس کی ماں اسے روئے وہ آ جائے اور میرا راستہ روک لے! یہ الفاظ کہہ کر ڈنکے کی چوٹ ہجرت کے لیے روانہ ہوئے ہیں. تو رسالت کا جو اصل منصب ہے یعنی دین کو قائم کرنے کی سعی و جدوجہد‘ اس میں یہ لوگ زیادہ نمایاں ہوجاتے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں . چنانچہ حضرت حمزہ ؓ کی شجاعت غزوۂ بدر میں ظاہر ہوئی. حضرت ابوبکر ؓ کے بارے میں سننے میں نہیں آئے گا کہ کسی کے ساتھ اس طرح کا دوبدومقابلہ ہوا ہو‘ اگرچہ وہ بات تو آتی ہے کہ آپؓ کے بیٹے عبدالرحمنؓ نے اسلام لانے کے بعد جب یہ کہا کہ ابا جان! آپ غزوۂ بدر میں میری زد میں آ گئے تھے‘ لیکن میں نے آپ کی رعایت کی‘ تو حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا کہ بیٹے! تم نے یہ اس لیے کیا کہ تم باطل کے لیے جنگ کررہے تھے‘ خدا کی قسم! اگرکہیں تم میری زد میں آ گئے ہوتے تو میں تمہیں کبھی نہ چھوڑتا. صدیقیت کا مقام نبوت سے قریب تر ہوتا ہے. چنانچہ جو مقام و مرتبہ حضور کا ہے اس سے بالکل ملحق مقام و مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا ہے. اس طرح اب سورۃ النساء کی آیت ۶۹ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ آپ کے سامنے پورے طور پر واضح ہو گئی.

البتہ اس ضمن میں دو باتیں ابھی اور سمجھ لیجیے! ایک یہ کہ میں نے dotted line کے ساتھ جو نسبت ظاہر کی ہے وہ ہے ’’ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا ‘‘ اور ’’ رَسُوۡلًا نَّبِیًّا ‘‘. قرآن حکیم میں مختلف رسولوں کے لیے یہ دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں. انبیاء و رُسل کے انتخاب کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا : اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾ (آل عمران) ’’اللہ نے (اپنی رسالت کے لیے) پسند فرما لیا‘ آدمؑ کو اور نوحؑ کو اور آل ابراہیم ؑ کو اور آلِ عمران کو‘ تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر‘‘. رسالت اور نبوت کے لیے یہ انتخاب ظاہر ہے کہ انسانوں میں سے ہی ہوا ہے‘ اور انسانوں میں اس نے عام طو رپر یہ دو مزاج بنائے ہیں‘ ایک وہ مزاج جس کی مناسبت صدیقیت کے ساتھ ہے اور دوسرے وہ مزاج جس کی مناسبت شہادت کے ساتھ ہے. تو حضرت ابراہیم اور ادریس (علیہما الصلوٰۃ والسلام) دونوں کے بارے میں قرآن مجید میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں : اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا (مریم:۴۱ و۵۶اور یہ نسبت میں نبوت کی طرف قائم کررہا ہوں‘ رسالت کی طرف نہیں . رسول کی دعوت کے قبول کرنے میں صدیقین اور شہداء میں فرق ہو گا. داعی کی حیثیت سے تو رسول سامنے آئے گا‘ لیکن داعی کا معاملہ رسالت کے ساتھ متعلق ہے. اور رسول کی دعوت کے ردّعمل کے اعتبار سے فرق یہ ہو گا کہ صدیق کوقبول کرنے میں دیر لگے گی ہی نہیں‘ وہ تو جیسے پہلے ہی سے منتظر تھے. جبکہ شہداء کو وقت لگے گا‘ دیر لگے گی. اس لیے کہ ان کی توجہ ہی ادھر نہیں ہے لیکن یہ کہ صدیقیت اور شہادت کی نبوت کے ساتھ نسبت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جن انسانوں کو شرفِ نبوت کے لیے چنا ہے تو ظاہر بات ہے یا تو وہ صدیقی مزاج کے حامل تھے یا شہیدی مزاج کے حامل تھے. تو دوسروں کو کہا گیا: رَسُوۡلًا نَّبِیًّا (مریم:۵۱ و۵۴کیونکہ شہادت کی نسبت رسالت کے ساتھ زیادہ ہے. اسی لیے ڈائیگرام میں ’’رَسُوۡلًا نَّبِیًّا ‘‘ والی dotted line رسالت تک پہنچائی گئی ہے. اور پھر رسالت سے آگے نبوت کا مرتبہ ہے.گویا شہیدی مزاج کے حامل مرتبہ رسالت سے ہوکر مرتبہ نبوت پر فائز ہوئے‘ جبکہ صدیقین براہِ راست نبوت سے سرفراز کیے گئے.

ایک بات اور سمجھ لیجیے کہ جو بھی اوپر والے درجے پر فائز ہے اس میں نیچے والے کے تمام اوصاف بتمام و کمال لازماً موجود ہیں. صدیق کا اپنا مزاج تو وہ ہے جو میں بیان کر چکا ہوں‘ لیکن عزم و ارادہ کے اعتبار سے اس کے اندر شہداء والی پوری شخصیت بھی موجود ہے. اس کا ظہور حضرت ابوبکر ؓ کے دورِ خلافت میں ہوا ہے. ورنہ حضور کی حیات ِ طیبہ تک حضرت ابوبکر ؓ کاجو مزاج سامنے تھا اس کے اعتبار سے آپ نہایت رقیق القلب اور نحیف الجثہ انسان تھے. وہ اس طرح کے انسان محسوس ہوتے ہی نہیں تھے جیسے بعد میں ظاہرہوئے. جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر خلافت کی ذمہ داری کا بوجھ آیا تو حالات نہایت critical اور مخدوش تھے. اتنی بڑی بغاوت برپا ہو گئی تھی کہ دارالاسلام دو شہروں تک محدود ہو گیا تھا. ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ کی کیفیت تھی. متعدد مدعیانِ نبوت کھڑے ہو گئے تھے اور لاکھوں آدمی ان کے ساتھ ہو گئے تھے. مسیلمہ کذاب کے ساتھ لاکھوں آدمی تھے. جنگ یمامہ میں کئی سو حفاظ شہید ہو گئے تھے. تبھی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تشویش ہوئی کہ اگر اسی طرح حفاظ صحابہ کرام شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآن مجید گم نہ ہو جائے‘ لہذا اسے کتابی شکل میں مرتب کر لینا چاہیے. دوسری طرف مانعین زکو ٰۃکا معاملہ اٹھ کھڑا ہوا تھا . 

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر revolution کے بعدجو ایک counter revolution کا مرحلہ آیا کرتا ہے وہ انقلابِ محمدیؐ کے بعد بھی آیا. حضور کی حیاتِ طیبہ کے آخری دور میں انقلاب کی تکمیل ہو گئی. انقلاب کی تکمیل کے مرحلے پر مخالف قوتیں جب دیکھتی ہیں کہ اب ہم بے بس ہو چکے ہیں تو پھر وہ دبک جایا کرتی ہیں اور منتظر رہتی ہیں کہ پھر کوئی موقع آئے گا تو ہم کوئی اقدام کریں گے. چنانچہ باطل قوتیں اُس وقت دبک گئیں. اس کے بعد جیسے ہی حضور کا انتقال ہواتو ان باطل قوتوں نے یک دم سر اُٹھایا. اُس وقت مسلمان صدمے اور غم سے نڈھال تھے اور ان کا مورال کچھ نہ کچھ کم ہو گیا تھا. اُس وقت یکایک فتنوں نے سر اٹھایا. ایک طرف مانعین زکو ٰۃ کھڑے ہو گئے ‘دوسری طرف مدعیانِ نبوت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسلامی ریاست تو یوں سمجھئے تقریباً مکہ اور مدینہ تک محدود ہو کر رہ گئی. اُس وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے رسول اللہ کی قائم کردہ اسلامی ریاست کو reclaim کیا ہے اور یہ کام فولادی عزم اور کوہ ہمالیہ جیسی عزیمت کے ساتھ کیا ہے. حضرت عمر ؓ بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ ذرا مصلحت کو پیش نظر رکھیے. آپ یہ جو پے بہ پے محاذ کھولتے جا رہے ہیں یہ قرین مصلحت نہیں. آپؓ نے جیش اُسامہ ؓ کو بھی نہیں روکا. لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ کا انتقال ہو گیا ہے‘ اب یہ لشکر نہ بھیجا جائے. لیکن آپؓ نے فرمایا : جس لشکر کی تیاری محمد رسول اللہ نے کی ہو میں اس کو کیسے روک دوں؟ چنانچہ جیش اسامہؓ روانہ کردیا گیا . دوسری طرف جو مدعیانِ نبوت کھڑے ہو گئے ان کا ارتداد تو بالکل الم نشرح تھا‘ لہذا ان کے خلاف تو جنگ کرنی ہی تھی‘ اس میں تو کسی مشاورت کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ لہذا اس کا محاذ بھی کھول دیا گیا.

اس کے بعد جب مانعین زکو ٰۃ کا مسئلہ سامنے آیاکہ نہ تو انہوں نے کسی نئی نبوت کا اقرار کیا اور نہ ارکانِ اسلام کا انکار کر رہے تھے . وہ نماز کا انکار بھی نہیں کر رہے تھے اور زکو ٰۃ کا بھی انکار نہیں کر رہے تھے‘ بلکہ صرف یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اپنی زکو ٰۃ حکومت کو نہیں دیں گے‘ ہم اسے اپنے طور پر تقسیم کریں گے جس طرح چاہیں گے. حضرت عمر ؓ نے مشورہ دیا تھا کہ آپ ان کے معاملے میں کچھ نرمی برتیں‘ لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے اُس وقت اُن کوبھی ڈانٹ پلائی کہ عمر ؓ ! تم دورِ جاہلیت میں تو بہت سخت تھے‘ اسلام میں آکر نرم ہو گئے ہو؟ خدا کی قسم ! اگر یہ حضور کے زمانے میں زکو ٰۃ کے اونٹوں کے ساتھ اُن کو باندھنے والی رسیاں بھی دیتے تھے تو اب اگر یہ اونٹ دینے کو تیار ہوں اور رسیاں دینے سے انکار کریں تب بھی مَیں ان سے جنگ کروں گا. اَیُبَدَّلُ الدِّیْنُ وَاَنَا حَیٌّ؟’’کیا دین کے اندر ترمیم ہو جائے گی جبکہ میں ابھی زندہ ہوں؟‘‘ تو یہ عزیمت ہے. اور پھر یہ کہ واقعتا اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عزم‘ ولولے اور حوصلے کا نتیجہ بھی ظاہر کر دیا. آپؓ ‘ کا زمانۂ خلافت پورے اڑھائی برس بھی نہیں‘ بلکہ دو سال چار ماہ ہے. اس قلیل عرصے میں ان تمام انقلاب مخالف قوتوں (counter revolutionary movements) کو ختم کیا اور میدان بالکل صاف کر کے حضرت عمرؓ کے حوالے کیا. اب چونکہ اندرونِ عرب تو ہر طرح کے فتنوں کا قلع قمع ہو چکا تھا‘ لہذا دورِ فاروقی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فوجیں مشرق‘ مغرب اور شمال کی طرف نکلیں اور دس برس کے اندر اندر کرۂ ارضی کا بہت بڑا حصہ پرچم اسلام کے زیرنگیں آ گیا. تو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو بھی بالاتر طبقہ ہے اس کے اندر نیچے والے طبقے کے سارے اوصاف موجود ہوتے ہیں‘اگرچہ dormant رہتے ہوں. وہ ظاہر تب ہی ہوں گے جب ایسا کوئی مرحلہ آئے گا‘ جب کوئی محاذ درپیش ہو گا. تو اِن حقائق کو اگر آپ سامنے رکھیں تو نبوت و رسالت‘ صدیقیت‘ شہادت اور صالحیت کی درجہ بندی سمجھ میں آ سکے گی.
جہاں تک بعض صوفیاء کے اس قول کا تعلق ہے کہ نسبت ولایت افضل ہے نسبت نبوت سے ‘اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی اور رسول یعنی جس شخصیت میں نبوت اور رسالت دونوں نسبتیں جمع ہیں اس کی نسبت ِنبوت نسبت ِرسالت سے افضل ہے. اب نسبت ِنبوت کو اصل مناسبت نسبت ِولایت کے ساتھ ہے اور نسبت ِرسالت کو اصل مناسبت نسبت ِشہادت کے ساتھ ہے. تو نبی کی جو ولایت ہے وہ نبی کی رسالت سے افضل ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں. لیکن یہ تصور کہ کوئی ولی جو غیر نبی ہے وہ کسی نبی سے افضل ہو سکتا ہے‘ یہ ایک غلط اور باطل تصور ہے. اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں.

سورۃ الحدید کی زیر مطالعہ آیت ۱۹ کا کچھ حصہ رہ گیا تھا ‘اسے ہم مکمل کر لیتے ہیں. فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ’’عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ‘‘ یہاں ’’الشُّہَدَآءُ‘‘ کے بعد آیا ہے. یہ صرف ’’الشُّہَدَآءُ‘‘ کے لیے بھی ہو سکتا ہے اور ’’الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ ‘‘ کے لیے بھی. ’’عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ‘‘ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں : ’’اللہ کے نزدیک‘‘ یا ’’اللہ کے پاس‘‘ . چنانچہ پہلا ترجمہ ہو گا ’’وہ اپنے ربّ کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں‘‘. جیسے ہم کہتے ہیں : میرے نزدیک اس کا مقام یہ ہے . تو یہ وہ لوگ ہوں گے جو اللہ کے نزدیک مراتب ِصدیقیت اور مراتب ِشہادت پر فائز ہوں گے. اس طرح ’’عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ‘‘ کا اطلاق دونوں پر ہوگا. لیکن میرے نزدیک دوسری بات زیادہ صحیح ہے کہ ’’عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ‘‘ کا اطلاق صرف ’’الشُّہَدَآءُ ‘‘ پر ہوتا ہے. اس لیے کہ گواہی اصل میں اللہ کے ہاں جا کر دینی ہے‘ جیسا کہ میں تفصیل سے عرض کر چکا ہوں. دنیا میں جب کوئی اللہ کا بندہ دعوت دیتا ہے اور دعوت اس حد تک پہنچا دیتا ہے کہ اتمامِ حجت ہو جائے تو اب وہی ہو گا جو اللہ کی عدالت میں گواہِ استغاثہ کی حیثیت سے کھڑا ہو گا اور سب سے پہلے وہ testify کرے گا کہ پروردگار! تیرا پیغام جو میرے پاس آیا تھا میں نے ان تک پہنچا دیا تھا. تو ’’ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ‘‘ کا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ عدالت ِخداوندی میں‘ عدالت ِاُخروی میں‘ اللہ کے ہاں محاسبۂ اُخروی کے وقت گواہ ہوں گے‘ اللہ کی طرف سے حجت قائم کرنے والے ہوں گے. اسے ہمارے ہاں کی عدالتی زبان میں گواہ ِ استغاثہ یا سرکاری گواہ (prosecution witness) کہتے ہیں. استغاثہ کے وکلاء بھی ہوتے ہیں‘ انسپکٹرز بھی ہوتے ہیں اور گواہ بھی.فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم جب عدالت میں پیش ہوتا ہے تو پہلے اس پر فردِ جرم عائد کی جاتی ہے اور یہ چارج شیٹ اسے پڑھ کر سنائی جاتی ہے‘اس لیے کہ اس نے ریاست کے قانون کو توڑا ہے. تو اس حوالے سے اللہ کے ہاں اِن ’’شہداء‘‘ کی حیثیت استغاثہ کے گواہ کی ہو گی. انبیاء ورُ سل وہاں پر شہادت دینے کے لیے کھڑے ہوں گے.

اب دیکھئے‘ صدیقیت تو شہادت سے بلند تررتبہ ہے‘ لہذا کیسے ممکن ہے کہ جوصدیق ہے وہ دعوت نہیں دے گا! چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ کی دعوت پر عشرۂ مبشرہ میں سے چھ حضرات ایمان لائے ہیں .اوپر والے میں نیچے والے کے سارے اوصاف موجود ہوتے ہیں. اس اعتبار سے اس آیت کا ایک ایک لفظ اُجاگر ہو کر ہمارے سامنے آگیا ہے اور ہم نے دیکھا کہ یہاں کوئی لفظ بھی ایسے ہی نہیں آگیا. قرآن حکیم میں برائے بیت یا برائے وزن کوئی شے نہیں ہے. ہر شے نہایت معنی خیز ہے اور اپنی جگہ پرہیرے کی طرح جڑی ہوئی ہے. ہر حرف اپنی جگہ پر اِس کے حسنِ معنوی کے اندر اضافہ کر رہا ہے. 

صدیقیت اور شہادت کے ضمن میں ایک بات مزید عرض کر رہا ہوں کہ اگرچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ صدیقین میں سے ہیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہداء میں سے ہیں‘ لیکن جب ہم مراتب شمار کرتے ہیں تو حضرت ابوبکرؓ کے بعد عمرؓ ہیں اور پھر عثمانؓ ہیں.اس طرح ذہنوں میں ایک اشکال پیدا ہو سکتا ہے ‘تو اس کو بھی سمجھ لیجیے کہ اپنی جگہ پر تو صدیقیت بلند تر مقام ہے مرتبہ شہادت سے‘ لیکن کمیت (quantity) کا مسئلہ اورہے. جیسے ہم کہتے ہیں کہ سوناچاندی کی نسبت زیادہ قیمتی دھات ہے‘ لیکن فرض کیجیے سوناچند تولے ہے اور چاندی منوں کے حساب سے رکھی ہوئی ہے تو ظاہر بات ہے منوں چاندی قیمت کے اعتبار سے چند تولے سونے سے بڑھ جائے گی‘ اگرچہ اپنی جگہ پر یہی کہا جائے گا کہ سونا ‘چاندی سے قیمتی ہے. یہ تمثیل بھی اس حدیث پر مبنی ہے کہ حضور نے خود فرمایا ہے کہ : اَلنَّاسُ مَعَادِنُ یعنی ’’انسانوں کا معاملہ بھی معدنیات کی طرح ہے‘‘.کوئی معدنیات زیادہ قیمتی اور کوئی کم قیمتی ہوتی ہیں. ایک روایت میں آگے یہ الفاظ بھی آئے ہیں :کَمَعَادِنِ الْفِظَّۃِ وَالذَّھَبِ ’’جیسے چاندی اور سونے کی کانیں ہوتی ہیں‘‘. سونا‘ چاندی‘ تانبا اور لوہا سب معدنیات ہی ہیں‘ لیکن ان کی اپنی اپنی حیثیت ہے. فرمایا: خِیَارُھُمْ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَـقُھُوْا (۱’’ان میں سے جو لوگ (اسلام سے قبل) جاہلیت میں بہتر تھے وہی پھر اسلام لا کر بھی بہتر ہوئے‘ جب انہوں نے دین کی سمجھ حاصل کر لی.‘‘ 

یوں سمجھئے کہ سونا جب آپ زمین سے نکالتے ہیں تو یہ کچ دھات (ore) کی صورت میں ہوتا ہے‘ اس میں کچھ کثافتیں ملی ہوئی ہوتی ہیں . اسے صاف کرتے ہیں تو وہ سونا بن جاتا ہے.اسی طرح چاندی کیore ہے‘ اس کے اندر بھی impurities ہیں‘ صاف کریں گے تو وہ چاندی بنے گی.یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ چاندی کی کچ دھات کو صاف کریں تو وہ سونا بن جائے. چاندی کی ore سے تو چاندی ہی وجود میں آئے گی. اسے آپ جتنا زیادہ صاف کریں گے اسی قدر خالص چاندی آپ کو مل جائے گی. اسی طرح سونے کی ore ہے تو خوب صاف کرنے سے آپ کو بہت عمدہ زرِ خالص عیار مل جائے گا. لیکن جب مقدار کا پہلو آ جائے گا تو چاندی کی زیادہ مقدار سونے کی قلیل مقدار سے زیادہ قیمتی ثابت ہو سکتی ہے. یہی معاملہ صدیقیت اور شہادت کا ہے. حضرت عمرفاروق ؓ اپنی جگہ پر مزاجاً شہید تھے‘ لیکن پھر اس کے اندر انہوں نے جو مقام حاصل کیا ہے اس quantitative عنصر کے اعتبار سے ان کا رتبہ بحیثیت مجموعی صحابہؓ ‘ (۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب الارواح جنود مجندۃ. کی جماعت کے اندر تمام صدیقین سے بڑھ گیا‘ سوائے صدیق اکبر ؓ کے.
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے افضل ترین ہونے میں کوئی شک نہیں‘ 
افضلُ البشرِ بعدَ الانبیاء بالتحقیق ابوبکرٍ الصِّدِّیق‘ دوسرے نمبر پر حضرت عمر فاروق ؓ ‘ تیسرے نمبر پر حضرت عثمان ؓ او رچوتھے نمبر پر حضرت علی ؓ ہیں.اگرچہ جہاں تک مزاج کا تعلق ہے حضرت علیؓ مزاجاً حضور کے مزاج سے قریب ترین ہیں .میں نے عرض کیا تھا کہ ambiverts بہت شاذ ہوتے ہیں. حضرت علی ؓ میں آپ دیکھئے ایک طرف ادب ہے‘ فصاحت و بلاغت ہے‘ چوٹی کے شاعر ہیں اور آپؓ نے عربی گرامر کے اصول و قواعد معین کیے ہیں. ’’نہج البلاغۃ‘‘ میں آپؓ کے خطبات دیکھئے کہ فصاحت و بلاغت کا کیا عالم ہے! اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں بہت سی چیزیں جھوٹی بھی شامل کر دی گئی ہیں‘ لیکن حضرت علیؓ کی فصاحت و بلاغت اور علم سے کون انکار کر سکتا ہے؟ آپؓ کا شمار چوٹی کے فقہاء صحابہؓ میں ہوتا ہے. دوسری طرف آپؓ مردِ میدان ہیں‘ تلوار کے دھنی ہیں. غزوۂ احزاب میں جب عمرو بن عبدوَدّ نے آگے بڑھ کر چیلنج کیا تو وہاں کسی کو اُس کے مقابل جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی. اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ۱۰۰ آدمیوں کے برابر قوت رکھنے والا شخص ہے. حالانکہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا‘ لیکن اتنا جری اور قوی ہیکل شخص تھا کہ اس کی شجاعت اور شہ زوری کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی. اس کا مقابلہ کرنے کے لیے حضرت علیؓ میدان میں آئے تو کہنے لگا اگر کوئی آخری خواہش ہے تو بیان کرو! حضرت علیؓ نے پہلے یہ خواہش ظاہر کی کہ مسلمان ہو جاؤ! جب اس نے اسے ردّ کر دیا تو دوسری خواہش یہ بیان کی کہ جنگ کے میدان سے واپس چلے جاؤ! اور جب اس نے اسے بھی ردّ کر دیا تو کہا کہ میری آخری خواہش یہ ہے کہ یا تو تم میرے ہاتھوں جہنم پہنچو یا تم مجھے جنت میں پہنچا دو! اس پر وہ ہنسا کہ میں نے آج تک اپنی پوری زندگی میں کسی شخص کو نہیں دیکھا جو مجھے مقابلے کی دعوت دے رہا ہو. پھر وہ مشتعل ہو کر گھوڑے سے نیچے اتر آیا. حضرت علیؓ نے دست بدست جنگ میں اسے جہنم رسید کر دیا. پھر حضرت علیؓ فاتح خیبر ہیں.خیبر کا قلعہ کسی کے ہاتھوں فتح نہیں ہو رہا تھا. رسول اللہ نے اعلان فرمایا: میں کل جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور جس سے اللہ اور رسولؐ محبت کرتے ہیں. صبح آپ نے حضرت علی ؓ کو جھنڈا عطا فرمایا اور آپؓ کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا. تو یہ جو توازن اور combination ہے کہ ایک طرف شجاعت و بہاری اور دوسری طرف فصاحت و بلاغت‘ ادبیت‘ شاعری ‘اس اعتبار سے حضرت علی ؓ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں چوٹی کے آدمی ہیں. چنانچہ میرے نزدیک صحابہ کرام میں جامعیت ِکبریٰ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے .

لیکن جب ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندر درجہ بندی کریں گے ‘تو جیسا کہ میں نے اس سے پہلے ایک موقع پر عرض کیا تھا ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شمار صف ِدوم میں ہو گا. اس لیے کہ حضرات ابوبکر و عمرو عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے کبار صحابہ تو لگ بھگ رسول اللہ کے ہم عمر قسم کے لوگ تھے‘ آپؐ کے اعوان و انصار تھے‘ جبکہ حضرت علی ؓ تو گویا حضور کی گود میں پروان چڑھے ہیں‘ وہ آپ کے گھر میں پلے بڑھے ہیں. چنانچہ یہ حقیقت اپنی جگہ پرواضح ہے کہ تربیت ِمحمدیؐ کا شاہکار تویقینا حضرت علی ؓ ہیں‘ اس لیے کہ جس قدر صحبت کا فیض اٹھانے اور حضور کی تعلیم و تربیت سے حصہ حاصل کرنے کاموقع حضرت علی ؓ کوملا کسی اور کے لیے اس کا امکان ہی نہیں ہے .لیکن وہ جو حضور کے ساتھی تھے ‘جو اعوان و انصار اور دست و بازو تھے‘ جو آپؐ کے ہم عمر اور آس پاس تھے ان کی صف ہی علیحدہ ہے‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس میں جگہ نہیں پاتے. اس اعتبارسے جولوگ ان کے درمیان تقابل کرنے کی کوشش کرتے ہیں میرے نزدیک وہ قیاس مع الفارق کے مرتکب ہوتے ہیں. دو چیزوں میں تقابل اور موازنہ وہاں کیا جاتاہے‘جہاں نوعیت ایک ہو. اگر نوعیت مختلف ہو تو اُن میں موازنہ کیا ہو گا؟ البتہ جیساکہ میں عرض کر چکا ہوں‘ مزاج کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حضرت علی ؓ رسول اللہ سے قریب ترین ہیں. 

دنیا کی کامل ترین متوازن شخصیت (بالفاظ دیگر ambivert ) تو صرف حضور کی ہے کہ ایک طرف قوائے ذہنی و فکری بھی انتہا پر ہیں اور دوسری طرف قوائے عملی بھی انتہا پر ہیں. ان دونوں کا امتزاج اگر بتمام و کمال ہوا ہے تو وہ خود محمد عربی ہیں. ڈاکٹر مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب ’’The 100‘‘ میں اس کے ہم وزن بات لکھی ہے. دیکھئے‘ اس شخص نے جب یہ کتاب مرتب کرنے کا فیصلہ کیا تو گویا یہ فیصلہ کیا کہ میں نسل انسانی کے پہلے سو (۱۰۰)عظیم ترین انسانوں کا انتخاب کروں گا جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑا اور اس کے رُخ کو معین کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا‘ پھر میں ان میں درجہ بندی کروں گا کہ اِن سو میں بلند ترین مقام پر کون ہے جس نے سب سے زیادہ فیصلہ کن انداز میں تاریخ کے دھارے پر اپنا اثر ڈالا ہے اور اس کے رُخ کو موڑا ہے. پھر اس اعتبار سے دوسرے اور تیسرے نمبر پر کون آئے گا! ظاہر ہے کہ اس کے لیے اس نے تاریخ انسانی کا گہرا مطالعہ کیا ہو گا اور خوب سوچ بچار کیا ہو گا. اس کے بعد وہ کتاب مرتب کرنے بیٹھا ہے تو نمبر ایک پر لایا ہے محمد رسول اللہ کو.ڈاکٹر مائیکل ہارٹ آج تک بھی عیسائی ہے. نہ تو ابھی اس کے مرنے کی خبر آئی ہے نہ اسلام قبول کرنے کی. اس کی یہ کتاب دنیا میں بہت عام ہوئی ہے‘ لیکن اشاعت کے بعد وہ بہت جلد نایاب ہو گئی تھی اور عام خیال یہ تھا کہ شاید کسی سازش کے تحت اسے غائب کیا گیا ہے. اس لیے کہ اس نے اس کتاب میں حضرت مسیح علیہ السلام کو نمبر تین پر رکھا اور حضور کو نمبر ایک پر لایا ‘ اور یہ بات عیسائی دنیا کے لیے قابل قبول اور قابل برداشت نہیں تھی. اس نے لکھا ہے : 

My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may" 
surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in 
".history who was supremely successful on both the religious and secular levels 

ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کے نزدیک انسانی زندگی کے دو علیحدہ علیحدہ میدان ہیں. ایک ہے مذہب‘ اخلاق اور روحانیت کا میدان‘ جبکہ ایک ہے تمدن‘ تہذیب‘ سیاست اور معاشرت کا میدان‘ اور ان دونوں میدانوں میں انتہائی کامیاب (supremely successful) انسان ایک ہی ہے اور وہ ہیں محمد . وہی بات میں کہہ رہا ہوں. یہ جو introverts اور extroverts کے درمیان ایک ایسی جامع شخصیت جو سرفہرست ہے وہ نبی اکرم‘ ہیں‘ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں پھر اس اعتبار سے حضرت علی ؓ کا مزاج آپؐ سے بہت قریب تر ہے.

صدیقین اور شہداء کے ذکر کے بعد فرمایا : 
لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ ’’ان کے لیے ان کا اجر اور اُن کا نور محفوظ ہے‘‘. اس سورۂ مبارکہ میں لفظ نور بہت کثرت کے ساتھ بار بار آ رہا ہے. سب سے پہلے تو یہ فرمایا کہ قرآن مجید انسانوں کو اندھیروں سے نکال کر نور میں لاتا ہے. یہ آیاتِ بینات پر مشتمل ہے. پھر یہ کہ نورِ ایمان قیامت کے دن ظاہر ہو گا اور منافقین اس سے محروم اور تہی دست ہوں گے. اہل ایمان کا نور اُن کے سامنے اور اُن کے دا ہنی طرف دوڑتا ہو گا. میرے نزدیک اس کی سادہ ترین توجیہہ یہ ہے کہ جو دل کا نور ہو گا اس کا ظہور سامنے کی طرف ہو رہا ہو گا اور اعمالِ صالحہ کا نور دائیں طرف ہوگا . اس لیے کہ اعمالِ صالحہ کا کاسب دایاں ہاتھ ہے. لہذا انسان کسی کوکچھ دیتا ہے تو داہنے ہاتھ سے دیتا ہے. سارے اچھے کام ہم داہنے ہاتھ سے کرتے ہیں.تو اعمال کا نور داہنی طرف اور ایمان کا نور سامنے کی طرف ہو گا. تو وہاں بھی نور کا تذکرہ آیا. یہاں بھی فرمایا: لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ یہ لام لامِ تملیک بھی ہے اور لامِ استحقاق بھی. میں نے ترجمہ میں لفظ ’’محفوظ‘‘ کا اضافہ کیا ہے ’’ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور محفوظ ہے‘‘. ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر عظیم بھی ہے اور ان کے لیے ان کا نور بھی محفوظ ہے.

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿٪۱۹﴾ ’’اور وہ لوگ کہ جو کفر کریں اور ہماری آیات کی تکذیب کریں وہی دوزخ والے ہیں‘‘. میں ان دونوں الفاظ (کفر اور تکذیب) کی یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ یہ جو الفاظ آئے ہیں یہ ایسے ہی نہیں آئے جیسے ہم صرف اضافے کے لیے الفاظ لاتے ہیں ‘ جیسے گورا چٹا‘ بلکہ ان کی معنویت ہے. کفر کا حقیقی اور لغوی مفہوم ہے چھپا دینا. اسی سے لفظ ’’کفارہ‘‘ ہے. آپ سے کوئی گناہ‘ کوئی غلطی ہو گئی تو اب اس کا کفارہ ہو گا کہ جو اُس کے اثر کو زائل کر دے گا. آپ کفارہ ادا کر دیں گے تو وہ گناہ گویاآپ کے نامہ اعمال سے حذف کر دیا جائے گا ‘ یا دھو دیا جائے گا‘ چھپا دیا جائے گا . تو اس کفر کے لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے اور یہ بھی کہ لفظ شکر کے مقابلے میں کیوں آتا ہے ؟ سلیم الفطرت انسان کے ساتھ جب بھی کوئی احسان کرتا ہے‘ حسن سلوک کرتا ہے‘ اس کی کوئی خدمت کرتا ہے‘ اسے کوئی قیمتی شے دیتا ہے تو اُس کے قلب کی گہرائیوں میں احسان مندی کے جذبات اُبھرتے ہیں جو زبان پر آ کر شکریے کی شکل اختیار کر تے ہیں. لیکن ایک بدطینت ناشکرے انسان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ محسن و منعم کا شکر ادا کرے‘ وہ ان جذباتِ تشکر کو دباتا ہے. یہی معاملہ ایمان اور کفر کا ہے. اس لیے کہ ایمان تو درحقیقت اس روح ربانی کے اندر موجود ہے جو ہمارے وجود میں پھونکی گئی ہے . جیسے فرمایا: وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ (الحجر:۲۹تو درحقیقت ’’ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ‘‘ کے مصداق نورِ فطرت اور نورِ وحی کے جمع ہونے سے ایمان وجود میں آتا ہے. کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی فطرت مسخ ہو چکی ہوتی ہے‘ فطرت کے سوتے خشک ہو چکے ہوتے ہیں‘ لیکن جس شخص کے اندر ذرا سی بھی فطرت کی سلامتی باقی ہے اس کے سامنے جیسے ہی نبی کی دعوت آتی ہے تو اس کے اندر سے اس کی تصدیق ابھرتی ہے کہ ہاں یہ بات صحیح ہے ؎ 

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا 
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ ’’ہی‘‘ میرے دل میں ہے!

لیکن فرض کیجیے کہ کوئی تعصب اور عصبیت ہے‘ کوئی ضد اور تکبر ہے‘ کوئی حسد ہے ‘ تو فطرت کی اس آواز کو دبایا جائے گا. یہود کے علماء نے حضور کا جو انکار کیا تو اس کی وجہ قرآن نے یہ بیان کی : حَسَدًا مِّنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِہِمۡ (البقرۃ:۱۰۹کہ یہ اپنے اندر کے حسد کی وجہ سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں‘ ورنہ یہ کہ یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ؕ (البقرۃ:۱۴۶’’یہ تو محمد( ) کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں‘‘. تو اگر پہچان بھی لیا‘ دل نے گواہی بھی دے دی‘ لیکن اس کے باوجود کوئی انکار کر رہا ہے‘ تو درحقیقت یہ دو مرحلے ہیں. ایک اپنے اندر کی تصدیق کو دبانا‘ بجائے اس کے کہ اسے ظاہر ہونے دیں‘ اور دوسرے زبان سے تکذیب کرنا‘ جھٹلانا. یہ گویا دو مظاہر (phenomenons) ہیں کہ ان دونوں کو ملا کر بات مکمل ہوتی ہے. باطن میں سے اُبھرنے والی تصدیق کو دبا دینا کفر ہے‘ جس کے لیے یہاں الفاظ آئے ہیں : وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا اور پھر نبیؐ کی دعوت کو جھٹلانا کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں غلط کہہ رہے ہیں‘ یہ تکذیب ہے اور یہ گویا جرم بالائے جرم ہے‘ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ کا مصداق ہے.تو فرمایا : وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ وہ لوگ کہ جو کفر کرتے ہیں‘ اندر کی حقیقتوں کو ‘اپنے باطن اور روح کی گواہیوں اور شہادتوں کو دباتے اور چھپاتے ہیں اور جب ہماری آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو اُن کی تکذیب کرتے ہیں‘ انہیں جھٹلاتے ہیں. اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿٪۱۹﴾ ’’یہی تو جہنم والے ہیں‘‘. یہ جہنم میں داخل ہو کر رہیں گے. 

مضامین کے اعتبار سے ہم نے سورۃ الحدید کی آیات کو سات حصوں میں تقسیم کیا تھا. آیت ۱۹ پر اِس کا چوتھا حصہ ختم ہو رہا ہے. یہ حصہ اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے. میں نے اِس کی وضاحت کی مقدور بھر کوشش کی ہے. بعض مفسرین نے ان آیات میں بہت سے اشکال پیدا کر دیے ہیں ‘ چنانچہ آپ مختلف تفاسیر دیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ ہمارے مفسرین کس طرح مختلف بحثوں میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں. یہ صرف دو چیزوں کی وجہ سے ہوا ہے. ایک تو یہ کہ آیت ۱۸ اور ۱۹ کے درمیان جو ربط ہے وہ لفظی طور پر موجود نہیں ہے ‘لہذا ’’اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا‘‘ کے مصداق یہاںسورۃ البلد سے استشہاد کر کے ’’ثُمَّ‘‘ محذوف ماننا پڑتا ہے .دوسرے یہ کہ لفظ شہید کاایک ہی تصور ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے اور وہ یہ کہ جو بھی اللہ کی راہ میں قتل ہو جائے وہ شہید ہے. حالانکہ میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ لفظ قرآن میں اس معنی میں نہیں آتا.صرف ایک مقام سورۂ آل عمران کا ہے جہاں یہ معنی مراد لیے جا سکتے ہیں. وہاں پر بھی دوسرا مفہوم مراد ہوسکتا ہے‘ لیکن مقتول فی سبیل اللہ بھی مراد لیا جا سکتا ہے. البتہ حدیث میں یہ لفظ اس معنی میں آیا ہے . لیکن ہمارے ہاں کچھ تصورات کا غلبہ اس طرح کا ہوجاتا ہے کہ اصل حقیقت اس کے پیچھے محجوب ہو جاتی ہے اور اس کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی.