انسانی زندگی کے پانچ ادوار ہیں. پہلا دور وہ ہے جبکہ زندگی صرف کھیل سے عبارت ہے. بچپن اور لڑکپن میں کوئی فکر‘ تشویش اور اندیشہ نہیں‘ اپنے کھانے پینے کی بھی فکر نہیں‘ وہ والدین کے ذمہ ہے‘ بھوک لگے گی تو ماں کھلائے گی‘ پلائے گی.بچے کے لیے زندگی صرف کھیل ہے. اِلا یہ کہ تکلیف ہو گی تو وہ رولے گا‘ کوئی احتیاج ہو گی تو منہ بسورے گا اور والدین کو اپنی طرف متوجہ کرے گا. باقی اس کو کسی اورشے کی کوئی فکر نہیں. یہ کھیل ابھی خالص معصومانہ کھیل ہوتا ہے‘ اس میں کوئی تلذذ کا عنصرنہیں ہوتا. بچے کی سوچ اورسارے کے سارے فکر کا مرکز کھیل (لعب) ہی ہوتا ہے. چنانچہ فرمایا گیا ہے: اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ.... 

اس کے بعد ایک سٹیج آتی ہے جسے ’’teen ager stage‘‘ کہا جاتا ہے. یہ انسانی زندگی کا نہایت خطرناک دور ہوتا ہے. اب یہاں کھیل صرف کھیل نہیں رہ جاتا‘ اس میں کچھ نہ کچھ تلذذ (sensual gratification) شامل ہو جاتا ہے. اس عمر میں آدمی بہت سی غلط قسم کی آوارگیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے. یہ دوسرا مرحلہ ’’لَھْو‘‘ ہے جو ’’لَعِب‘‘ کے بعد ہے. 
تیسری سٹیج ہے 
’’زِیۡنَۃٌ ‘‘ یعنی بناؤ سنگھار. اٹھارہ سے بیس برس کے نوجوانوں اور خاص طور پر لڑکیوں کے ذہن پر جو چیز سب سے زیادہ سوار ہوتی ہے وہ فیشن ہے. وہ چاہتے ہیں کہ لباس اور وضع قطع بالکل فیشن کے مطابق ہوں. اگر تنگ موری والی پینٹ کا رواج ہے تو کوئی نوجوان چوڑی موری والی پینٹ پہننے کو ہرگز تیار نہیں ہو گا اور اس کے برعکس چوڑے قسم کے پائنچوں والی پتلون کا رواج ہے تو وہ دوسری قسم کی پتلون نہیں پہنے گا. گویا ان کے سارے سوچ و فکر‘ احساسات اور نفسیات کے اندر سب سے نمایاں شے یہی بناؤ سنگھار اور زینت ہوتی ہے. 

اس کے بعد چوتھا دور آتا ہے ’’ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ ‘‘ کا .یہ دور دراصل ۲۵ سال کی عمر سے لے کر ۳۵ یا ۴۰ سال کی عمر تک کا دور ہے. اس میں اصل شے تفاخر ہے کہ انسان فخر میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانا چاہتا ہے. فخر مختلف چیزوں پر ہو تا ہے. فخر علم پر بھی ہو سکتا ہے‘ اپنے زہد و عبادت گزاری پر بھی ہو سکتا ہے اور مال و دولت پر بھی.جیسے پٹھانوں کے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ اگر مدمقابل کے گھر پر نئے ماڈل کی کار آ گئی ہے تو پٹھان چاہے اپنی زمین گروی رکھے یا کچھ اور کرے بہرحال اسی ماڈل یا اس سے بہتر قسم کی کار جب تک اس کے دروازے پر نہیں آئے گی اسے چین نہیں آئے گا. اسی طرح اپنی نسل اورعصبیت پر بھی فخر ہو سکتا ہے. یعنی اپنی قبائلی برتری کا احساس ہو رہا ہے. یہ ’’ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ ‘‘ کا دور ہے. 

چالیس برس کے بعد جب عمر ڈھلنی شروع ہوتی ہے تو ’’تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ ‘‘ والا دور شروع ہو جاتا ہے. اب انسان کو کثرت کی فکر ہو جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال جمع ہو جائے‘ بلکہ میں یہ الفاظ استعمال کیا کرتا ہوں کہ ’’تفاخر‘‘ کے دور میں تو آدمی مونچھ اونچی رکھتا ہے‘ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ مونچھ نیچی نہیں ہونے دیتا‘لیکن ’’تکاثر‘‘ کے دور میں آدمی سوچتا ہے کہ مونچھ چاہے مونڈ بھی دی جائے لیکن پیسہ ملے. اس کے پیش نظر اصل شے پیسہ اور دولت ہوتی ہے کہ یہ کسی طرح اس کے پاس آ جائے‘ چاہے اسے کچھ بھی کرنا پڑے. آدمی اس دور میں گویا بڑا حقیقت پسند(realistic) ہوجاتا ہے کہ اب بناؤ سنگھار اور تفاخر جیسی چیزوں پر کیوں خواہ مخواہ اپنی دولت ضائع کی جائے. بس پیسہ سنبھالو اور دولت سینت سینت کررکھو!

یہاں قرآن مجید میں کثرت کی خواہش میں اولاد کا ذکر بھی موجود ہے.آج میڈیا کے گمراہ کن پروپیگنڈے کے زیر اثر کثرتِ اولاد کو باعث ِعار سمجھا جانے لگا ہے‘ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ کثرتِ اولاد ہمیشہ فخر کی علامت رہی ہے. خاص طور پر جس کے جوان بیٹے ہوں اس کو یقینا ایک تقویت حاصل ہوتی ہے. قبائلی زندگی میں تودر اصل انسان کی ذاتی عزت و وجاہت اسی بنیاد پر تھی. آج بھی دیہاتی زندگی میں یہ عنصر موجود ہے. میرے ایک کلاس فیلو ڈاکٹر سلیم صاحب ‘جو ایک ڈاکے میں قتل کر دیے گئے تھے‘ مثال دیا کرتے تھے کہ باجوہ فیملی کے ایک شخص کے ‘ جو فیصل آباد کے قریب کسی گاؤ ں کا رہنے والا تھا‘ گیارہ بیٹے تھے جو سب کے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو گئے . کوئی کہیں پر ڈی سی لگ گیا ‘ کوئی کسی اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گیا‘ جبکہ گاؤ ں میں کوئی بھی اس کے پاس نہیں تھا. وہاں پر تو اس کا مقابلہ وہاں کے لوگوں کے ساتھ ہوتا تھا اور وہاں اُس کے پاس کوئی بھی بیٹا نہیں تھا جو اُس کا دست و بازو بنتا اور اس کی طرف سے مدافعت کرتا .تو وہ کہا کرتا تھا کہ کوئی میرے گیارہ پڑھے ہوئے لے لے اور مجھے ایک اَن پڑھ دے دے . اس لیے کہ یہاں پر تو جس کے پاس لاٹھی ہے اس کی عزت ہے‘ گاؤں میں تو سراٹھا کر وہی چل سکتا ہے جس کے جوان بیٹے اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں اور میرے بیٹے تو پڑھ لکھ کر سب کے سب چلے گئے‘ لہذا میرے لیے عزت و وجاہت کی کوئی بنیاد موجود نہیں (۱. یہاں خاص طور پر نوٹ کر لیجیے کہ قرآن مجید خاص قبائلی پس منظر میں نازل ہو رہا تھا اور اس کے اوّلین مخاطب وہی تھے جن کا سارا نظام قبائلی تھا .آج کی دنیا میں تو ضبط ِتولید اور فیملی پلاننگ کا معاملہ ہے‘ لیکن فطرت سے قریب تر جو معاشرہ ہوتا تھا‘ اور اب بھی جو ہو گا وہاں کثرت کی محبت میں مال کے ساتھ اولاد بھی لازمی طور پر شامل ہے.چنانچہ ہمارے دیہاتوں کے اندر اب بھی ’’تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ ‘‘ دونوں ساتھ ساتھ ہیں. 

درحقیقت ان پانچ الفاظ کے مابین جو ربط ہے وہ بڑا اہم اور حکمت پر مبنی ہے. اصل بات جو بتائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ زندگی تو لامحالہ ان ادوار میں سے ہو کر گزرے گی. بچپن بھی آئے گا‘ نوجوانی کا دور بھی آئے گا‘ جوانی اور بڑی قوت والی (۱) پنجابی زبان کا مشہور محاورہ ہے : ’’ویراں بانجھ نہ جوڑیاں تے پتراں بانجھ نہ مان!‘‘ یعنی بھائیوں کے بغیر جوڑی (جتھہ بندی) نہیں بنتی اور بیٹوں کے بغیر فخر کی کوئی بنیاد نہیں. (مرتب) زندگی کا دور بھی آئے گا. پھر ادھیڑ عمر کے مرحلے کو بھی انسان پہنچے گا اور اسے بڑھاپا بھی آکر رہے گا . ان مراحل میں سے کسی کو بھی انسان روک نہیں سکتا. یہ تو گویا وقت کی رفتار ہے‘ جس کا روکنا ممکن نہیں ہے. البتہ اب آخرت سے اس کا تقابل کیا گیا ہے. فرمایا: وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ ’’اور آخرت میں یا تو سخت عذاب ہے اور یا پھر اللہ کی مغفرت اور خوشنودی ہے‘‘. آخرت کی زندگی میں ابدی طور پر نوع انسانی کے دو حصے ہو جائیں گے‘ یا اللہ کی طرف سے رضوان اورمغفرت ہو گی یاشدید عذاب ہو گا. وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۲۰﴾ ’’اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘. یہ دنیا کی زندگی کہیں تمہیں اپنے اندر گم نہ کر دے. ایسا نہ ہو کہ تم دنیا ہی کومطلوب و مقصود سمجھ بیٹھو. جیسے اقبال نے کہا ہے ـ ؎
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق! 

دُنیوی زندگی بھرپور طریقے سے گزارنی ہے لیکن ؏ ’’بازار سے گزرا ہوں ‘ خریدار نہیں ہوں!‘‘ کے مصداق اس کو مطلوب و مقصود نہیں سمجھنا. ایک حدیث نبویؐ ہے: کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ (۱’’دنیا میں اس انداز سے رہو گویا اجنبی (غریب الوطن) ہو یا راہ چلتے مسافر‘‘.یہ بات سامنے رہے کہ یہ تمہارا گھر اور منزل نہیں ہے‘ یہاں تمہیں ہمیشہ نہیں رہنا‘ تم راہ چلتے مسافر ہو . ایک دفعہ حضور اکرم سخت قسم کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے جس سے آپؐ کی پیٹھ مبارک پر نشان پڑ گئے تھے. کسی صحابی ؓ نے عرض کیا کہ حضور ( )! آپ کے لیے آرام دہ بستر کا انتظام نہ کر لیا جائے؟ تو حضور نے فرمایا: مَالِیْ وَمَا لِلدُّنْیَا‘ مَا اَنَا فِی الدُّنْیَا اِلَّا کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا (۲’’مجھے اس دنیا سے کیا (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب قول النبی :کُن فِی الدُّنْیَا … وسنن الترمذی‘ کتاب الزھد‘ باب ما جاء فی قصر الامل.

(۲) سنن الترمذی‘ کتاب الزھد‘ باب ما جاء فی اخذ المال بحقہٖ. وسنن ابن ماجہ‘ کتاب الزھد‘ باب مثل الدنیا. سروکار! میں تو اس دنیا میں بس اس طرح ہوں جیسے کوئی سوار (گھوڑ سوار یا اونٹنی پرسوار) کسی درخت کے سائے میں رُکتا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے آرام کے بعد اسے چھوڑ دیتا ہے (اور اپنی اصل منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے)‘‘. وہ درخت اس کا گھر‘ وطن اور منزل نہیں ہے‘ وہ اسے چھوڑ کر اپنا راستہ لیتا ہے. چنانچہ اس دنیا کو بس اتنی سی دیر کے لیے قیام گاہ سمجھو‘ اس سے زیادہ نہیں. 

ایک بات اور نوٹ کیجیے کہ یہاں جو پانچویں چیز ’’تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ‘‘ بیان کی گئی ہے‘ اس کی وضاحت یا تکمیل سورۃ التّکاثر میں بایں الفاظ ہو رہی ہے: اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾ ’’تمہیں کثرت کی محبت نے غفلت میں ڈالے رکھا یہاں تک کہ تم قبروں تک جا پہنچے‘‘. یہ ایک عظیم حقیقت ہے کہ انسان کے پاس چاہے دولت کے انبار ہوں اور اتنی دولت ہو کہ کئی نسلوں کے بارے میں اطمینان ہو کہ وہ آرام سے بیٹھ کر اسے کھا سکتی ہیں‘ لیکن پھر بھی دولت کی بہتات کی طلب ختم نہیں ہوتی. صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ایک شخص قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے‘ لیکن دولت کی حرص ختم نہیں ہوتی. تو یہی وہ کیفیت ہے جسے تکاثر سے موسوم کیا گیا ہے.