حیاتِ انسانی کے متذکرہ بالا پانچ ادوار کے بعد ایک بڑی پیاری تمثیل آ رہی ہے. فرمایا : کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ ’’اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے‘ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی‘ پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے‘‘.جس طرح انسانی زندگی کا سائیکل ہے کہ بچپن ہے‘ پھر نوجوانی ہے‘ پھر پوری طاقت اور شدت کو پہنچنا ہے ‘ اس کے بعد ادھیڑ عمر اور پھر بڑھاپا ہے‘ اسی طرح ایک نباتاتی سائیکل چل رہا ہے. کَمَثَلِ غَیۡثٍ ’’جیسے مثال ہے بارش کی‘‘.اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ’’ کاشت کاروں کو اس کی نباتات بھلی لگیں‘‘. ’’کفر‘‘کے لغوی معنی ہیں دبا دینا‘ چھپا دینا اور مفسرین کا تقریباً اجماع ہے کہ یہاں ’’کفار ‘‘سے مراد وہ اصطلاحی کافر نہیں ہیں جو اللہ یا اُس کے رسولؐ یا آخرت یا قرآن کا انکار کریں‘ بلکہ یہاں کفار سے مراد کاشت کار ہیں. اس لیے کہ کاشت کار بھی زمین میں بیج کو دباتا ہے کہ پھر وہاں سے کھیتی ابھرے گی اور لہلہائے گی.سورۃ الفتح کی آخری آیت میں کاشت کار کے لیے ’’زُّرَّاعَ‘‘ کا لفظ آیا ہے یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ جب بارش ہوتی ہے تو کھیتی اپنی سوئی نکالتی ہے‘ چھوٹی چھوٹی پتیاں نمودار ہوتی ہیں تو کاشتکار کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے. 

ثُمَّ یَہِیۡجُ ’’پھر وہ کھیتی اپنی پوری قوت پر آتی ہے‘‘ . ھَاجَ‘ یَھِیْجُ کسی چیز کے بھڑکنے ‘ برانگیختہ ہونے اور جوش مارنے کے لیے آتا ہے. چنانچہ کہاجاتا ہے ’’ھَاجَ الدَّمُ‘‘ (خون نے جوش مارا) اور ’’ھَاجَ الْفَحْلُ‘‘ (نر اونٹ جوش میں آیا‘ بپھر گیا). اسی سے باب تفعیل میں ھَیَّجَ ‘ یُھَیِّجُ‘ تَھْیِیْجًا آتا ہے ‘جس کا مطلب ہے کسی شے کو جوش دلانا.اور ’’ہیجان‘‘ کا لفظ تو اردو میں بھی مستعمل ہے. تو فرمایا جا رہا ہے کہ بارش ہوئی تھی تو اب بے آب و گیاہ مٹی میں سبزہ نمودار ہو گیا ہے .پھر وہ فصل لہلہاتی ہے ‘ پوری قوت کو آتی ہے‘ جوش مارتی ہے . آگے فرمایا: فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ’’پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئی‘‘. کچھ عرصے کے بعد اب وہ فصل یا گھاس زرد پڑ جائے گی .بالفرض گیہوں کی فصل ہے تو شروع میں تو بڑا ہریالی کا منظر نظر آتا ہے‘ لیکن جب فصل پکنے پر آتی ہے تو وہ زرد پڑ جاتی ہے. ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ’’پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے‘‘. اب اگر فصل ہو تب بھی وہ کٹنے کے بعد بھس بن جاتی ہے اور اگر چراگاہ ہو تب بھی اس کا یہی حال ہوتا ہے. چراگاہیں بھی بڑے بڑے رقبوں پر مشتمل ہوتی ہیں. پورے وسطی ایشیا کے جو ہموار علاقے ہیں ان کے بڑے بڑے رقبے چراگاہوں پر مشتمل ہیں. یہ سطح مرتفع کی ڈھلوانیں ہوتی ہیں جن پر سب سے زیادہ قوی لوگ پیداہوتے ہیں. منگولز بھی سطح مرتفع کے رہنے والے تھے. اسی طرح ہندوستان میں جومرہٹے پائے جاتے ہیں وہ بھی سطح مرتفع دکن کے لوگ ہیں. ان کے ہاں یہی ہوتا تھا کہ بارش کے بعد سبزہ اُ گ آتا تو اب ان کے جانوروہاں چرتے پھررہے ہوتے اور یہ خود گھوڑوں پر سوار ہو کر پھررہے ہوتے. یہی قبائل تھے کہ جب گھوڑوں پرسوار ہو کر نکلتے تھے تو پھر دنیا میں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا‘ وہ اٹیلا ہو یا چنگیز ہو. چنگیز کہاں سے چل کر کہاں پہنچا ہے! یہ تمام تاریخی حقائق ایچ جی ویلز نے بڑی خوبصورتی سے بیان کیے ہیں. 

بہرحال یہاں پر یہ دیکھئے کہ اس کے بعد وہ سبزہ بھی کچھ عرصہ کے بعد دھوپ کی وجہ سے جل جائے گا‘ زرد ہو جائے گا ‘ پھر وہ بھربھرا سا ہو کر پاؤں تلے روندا جائے گا اور کچھ عرصہ کے بعد مٹی ہو کر مٹی میں مل جائے گا‘ اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہو گا. گویا وہ سبزہ‘ ہریالی اور تروتازگی ختم ہوئی‘ اورمعلوم ہوا کہ وہی سبزہ اب خاک بن کر اڑ رہا ہے. اب وہاں پھر وہی ویرانی ہے اور ریگزار کا ایک منظر ہے. چونکہ قرآن مجید کے اوّلین مخاطبین عرب تھے لہذا یہ عرب کا پورا پورا پس منظر واضح ہو گیا.تو جیسے اس دنیا میں چند مہینوں کا نباتاتی سائیکل ہے کہ باقاعدہ بیج ڈالا‘ فصل تیار ہوئی‘ اب کٹنے کے بعد اُس کے تنکے ہوا میں اڑتے پھر رہے ہیں‘ بعینہٖ انسانی زندگی کا ایک سائیکل ہے. جس گھر میں بھی کوئی نئی ولادت ہوتی ہے‘ بچہ پیدا ہوتا ہے تو خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں. پھر وہ بچہ بڑا ہوتا ہے‘ پھر اس میں طاقت آتی ہے‘ وہ جوانی کو پہنچتا ہے‘ اب اس کی امنگیں ہیں‘ اس کے ولولے ہیں. اس میں تفاخر پیدا ہوتا ہے. پھر اس کی ایک ڈھلوان آتی ہے .اب چہرے پر بھی زردی آتی ہے‘ چہرے پر جھریاں پڑ رہی ہیں‘ بال اب سیاہ نہیں رہے بلکہ سفید ہو رہے ہیں. آخر کار بڑھاپا آتا ہے ‘ پھر موت آتی ہے اور وہ قبر میں اتار دیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد مٹی ہو کر مٹی میں مل جاتا ہے.

نباتاتی سائیکل (Botanical Cycle) اور انسانی زندگی کا سائیکل (Human life Cycle) دونوں میں بڑی گہری مناسبت ہے ‘ اور اس آیت کریمہ کا جو اصل معنوی حسن ہے وہ اسی میں مضمر ہے. یہ انسانی زندگی کے مختلف مراحل ہیں جن سے ہر کسی کو گزرنا ہے. یہ ہر ایک کے ساتھ ہونا ہے‘ بادشاہ کے ساتھ بھی ہونا ہے اور فقیر کے ساتھ بھی .محلوں میں رہنے والوں کے ساتھ بھی ہونا ہے اور جھونپڑیوں والوں کے ساتھ بھی. فقیروں اور گداگروں کی زندگی بھی بالآخر ختم ہو گی‘ وہ بھی مٹی میں مل کر مٹی ہوں گے اور بادشاہوں اور محلات میں رہنے والوں کی زندگی بھی ختم ہو گی اور یہ بھی مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے. 

لیکن آگے فرمایا جا رہا ہے : 
وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ ’’اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور (یا پھر) اللہ کی رحمت اور رضامندی ہے‘‘. آخرت میں دوام اور مستقل زندگی ہے. وہاں یا تو عذاب ہے بہت سخت اور یا پھر دوسری شکل ہے کہ اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضا ہے. وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۲۰﴾ ’’اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے سامان کے کچھ نہیں ہے‘‘. البتہ یہ حقیقت بھی آپ کے سامنے رہے کہ دنیا اس اعتبار سے تو دھوکے کا سامان ہے اگر یہ آپ کو آخرت سے غافل کر دے‘ لیکن اگر خوش قسمتی سے آخرت آپ کو منزلِ مقصود کے طور پر مستحضر رہے تو دنیا کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے‘ اس لیے کہ اسی سے آخرت بنانی ہے. اس ضمن میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے : اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْآخِرَۃِ (۱’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘.یہاں بوؤ گے تو وہاں کاٹو گے. یہاں اگر بویا ہی کچھ نہیں تو وہاں کاٹو گے کیا! فصل کہاں سے ملے گی؟ اس اعتبار سے زندگی بہت قیمتی شے ہے. یہ liability نہیں ہے‘بہت بڑا اثاثہ ہے‘ لیکن اس حوالے سے کہ اگر آخرت سامنے رہے اور مقصود و مطلوب وہی ہو .اور اگر اس دنیا نے انسان کو غافل کر دیا‘اپنے اندر گم کر لیا تو پھر یہ دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں. مؤمنوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ رہتے تو اس دُنیا میں ہیں‘ لیکن دنیا کے باسی نہیں ہیں‘ دنیا کے طالب نہیں ہیں‘ دنیا ان کے علم کا مبلغ نہیں ہے. وہ جانتے ہیں کہ ہماری منزل تو آخرت ہے‘ ہم وہاں جا رہے ہیں. یہ تو ایک عارضی سفر ہے‘ عارضی قیام گاہ ہے. اگر یہ کیفیت ہے تو دنیا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے ‘اس سے اگر صحیح استفادہ کیا جائے تو اسے ’’امر‘‘ بنایا جا سکتا ہے.