آگے فرمایا : اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ؕ ’’یہ تیار کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اللہ پر اوراُس کے رسولوں پر‘‘. اَعَـدَّ (باب افعال) کسی شے کو اہتمام کے ساتھ تیار کرنے کوکہاجاتا ہے. یعنی یہ جنت فراہم کی گئی ہے‘ تیار کی گئی ہے‘ سنواری گئی ہے‘ پورے طریقے سے اس کو بنایا گیا ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر .اب یہاں نوٹ کر لیجیے کہ سورۃ الحدید کی اس آیت میں بھی اور انیسویں آیت میں بھی ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کے آگے کسی شے کا اضافہ نہیں کیا گیا. انیسویں آیت میں سلوکِ قرآنی اپنے نقطہ‘عروج کو پہنچا ہے. فرمایا:وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ ’’اور جو لوگ ایمان لائے اللہ اور اس کے رسولوں پر‘ وہی صدیقین ہیں‘‘. اس میں نہ تو انفاق کا تذکرہ ہے ‘ نہ قتال کا اور نہ ہی اعمالِ صالحہ کا. لیکن مراد یہ ہے کہ جب واقعتا حقیقی معنی میں ایمان موجود ہو گا تو یہ اعمال بھی لازماً موجود ہوں گے. یہ گویا از خود وہاں پر مندرَج ہیں‘ understood ہیں. اس ایمان کے ساتھ انفاق بھی ہو گا ‘جہاد بھی ہوگا‘ قتال بھی ہو گا‘ اعمالِ صالحہ بھی ہوں گے‘ نماز ‘روزہ ‘حج اور زکو ٰۃ یہ سب کچھ ہوں گے. لہذا یہاں پر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ مجرد ایمان کی بات ہو رہی ہے. تو یہاں مراد یہ ہے کہ یہ جنت تیار کی گئی ہے ‘اس کو آراستہ و پیراستہ کیا گیا ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر حقیقتاً ایمان رکھنے والے ہوں گے.