اس سورۂ مبارکہ کے پہلے حصے میں فلسفہ وجود سے متعلق کافی بحث ہو چکی ہے‘ البتہ اس آیت میں وارد لفظ ’’نَبْرَأَ ‘‘ کے حوالے سے بات سمجھ لینی چاہیے.اللہ تعالیٰ کا ایک اسم گرامی ’’الباریٔ‘‘ ہے‘جیسے کہ سورۃ الحشر کی آخری آیت میں اسماءِ حسنیٰ بیان ہوئے: ہُوَ اللّٰہُ الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ؕ ’’باریٔ‘‘ کے مفہوم کو سمجھنے سے پہلے لفظ ’’خالق‘‘ کو سمجھ لینا چاہیے. عام طورپرجب لفظ ’’خالق‘‘ کے ساتھ لفظ ’’باریٔ‘‘ آتا ہے تو اکثر لوگوں نے اس کا یہ نقشہ پیش کیا ہے کہ خلق کہتے ہیں ذہنی طور پر کسی شے کی منصوبہ بندی اور نقشہ بندی کرنے کو اور برأ کا مطلب ہے اُس شے کو ایک ظاہری شکل عطا کر دینا. ہماری انسانی تخلیق میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے. کوئی مصور پہلے اپنے ذہن میں ایک خاکہ بناتا ہے ‘پھر اسے صفحۂ قرطاس یا کینوس پر لاتا ہے. کوئی موجد ہے تو اس کے ذہن میں بھی پہلے اس ایجاد کا تصور آتا ہے‘ پھر عملاً یہ شے معرضِ وجود میں آتی ہے. باریٔ کے لفظ میں اصولی طور پر یہ بات موجود ہے . بَرَئَ ‘ یَبْرَئُ کا لغوی معنی ہے کسی شے سے علیحدہ ہو جانا.اسی سےبراء ت اور تبرّأ وغیرہ الفاظ بنے ہیں جن کا یہی مطلب ہے کہ علیحدہ ہو جانا.

اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے بارے میں بھی فلاسفہ نے یہی دو مراحل بیان کیے ہیں کہ ایک ہے کسی شے کا وجودِ علمی جو اللہ کی ہستی اور اس کے علم میں تھا‘ وہ شے ہمیشہ سے اللہ کے علم میں تھی‘ بس اس کا خارجی وجود نہیں تھا. اب وہ خارجی طورپر وجود میں آتی ہے تو یہ ہے بَرَئَ ‘ یَبْرَئُ اور اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰاَلْبَارِیٔ ہے. جو بھی حوادث اس کائنات میں آنے والے ہیں علم خداوندی میں تو پہلے سے موجود ہیں. وہ ’’عَالِمُ مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘ ہے. جو ہوا ہے اور جو ہونا ہے سب اس کے علم میں ہے . تو جہاں تک کسی شے کے وجودِ علمی کا تعلق ہے تو ہر شے ہمیشہ سے اللہ کے علم میں ہے. جیسے اللہ کی ذات قدیم ہے ایسے ہی اس کی صفات اور اس کا علم بھی قدیم ہے. ہر شے کا ایک وجودِ علمی اللہ کی ذات کے ساتھ پہلے سے قائم تھا. اس کو کہا گیا: اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ کتاب سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا علم.تو اللہ کے علم میں وہ شے پہلے سے موجود تھی . آگے الفاظ آ رہے ہیں : مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ ’’اس سے پہلے کہ ہم اسے ظاہرکر دیں‘‘ . اب گویا وہ شے وجودِ علمی سے وجودِ خارجی میں منتقل ہو رہی ہے. علامہ اقبال کا ایک بہت اونچا شعر ہے ‘البتہ اس پر بہت زیادہ قیاس نہ کیجیے گا. فرمایا:

بضمیرت آرمیدم تو بہ جوشِ خود نمائی
بہ کنارہ برفگندی دُرِ آبدارِ خود را!

یعنی اے اللہ! میں تو تیرے وجود کے اندر بڑے آرام سے تھا. یعنی علامہ اقبال جو ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوئے یا اس سے بھی نو مہینے پہلے ان کی والدہ محترمہ کے رحم کے اندر ان کا جو استقرارِ حمل ہوا اس سے لاکھوں کروڑوں سال پہلے بھی تو ان کا وجود اللہ کے علم میں تھا ‘تو اس اعتبار سے وہ کہہ رہے ہیں کہ میں تیرے وجود کے اندر یعنی تیرے علم میں بڑے آرام میں تھا. مجھے تو کوئی چنتا‘ کوئی تشویش ‘کوئی فکر نہیں تھی ‘ تو نے خود ہی اپنی خلاقی کے ظہور کے لیے مجھے اپنے وجود سے باہر کیا. 

یہاں علامہ اقبال بڑی پیاری تمثیل لائے ہیں کہ سیپی کے اندر موتی پروان چڑھ رہا ہوتا ہے ‘جب موتی بن جاتا ہے تو سیپی از خود کھلتی ہے اور موتی کو باہر پھینک دیتی ہے. گویا اس کے وجود میں جو قیمتی شے پروان چڑھ رہی تھی وہ تو ظہور چاہتی ہے ‘اگر سیپی کے اندر ہی وہ موتی گم رہے تو ظاہر بات ہے اس کا حسن کس نے دیکھا. جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا!اس سیپی کے اندر اعلیٰ سے اعلیٰ اور قیمتی سے قیمتی موتی پڑا ہوا ہے تو اسے کس نے دیکھا! کون اس کے حسن کی تعریف کرے گا ؟تو سیپی خود کھلتی ہے اور اس میں سے وہ موتی باہر نکلتا ہے جس کو پھر ہمارے غو اص (غوطہ خور) سمندر کی تہہ سے نکال لاتے ہیں. تو اقبال اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہیں کہ تو نے خود ہی سیپی کی طرح مجھے اپنے وجود سے باہر کیا‘ یعنی مجھے یہ مادی وجود عطا کیا جو اس وقت میں علامہ ڈاکٹرشیخ محمد اقبال ولد شیخ نور محمد کے نام سے دنیا میں ہوں .اصل میں اقبال یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خلاقی کے ظہور کے لیے اس کائنات کو پیدا کیا. تو اس پورے فلسفے کو سمجھ لینے سے لفظ 
بَرَءَ کے حوالے سے یہ پوری حقیقت واضح ہو جائے گی. بدقسمتی سے ان چیزوں پر غور کا حق ادا نہیں کیا گیا.

اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿ۚۖ۲۲﴾ ’’یہ چیز اللہ کے لیے بڑی آسان ہے‘‘. یہ تمہیں تو بڑی مشکل بات معلوم ہو گی کہ یہ ساری چیزیں ہی کسی کے علم میں موجود ہوں‘ لیکن یہ اللہ کی بات ہو رہی ہے . تم جس طرح اللہ کے وجود اور ذات کو نہیں سمجھ سکتے اسی طرح اس کی صفات کی کیفیت اور کمیّت کو بھی نہیں جان سکتے. واقعہ یہ ہے کہ صفاتِ باری تعالیٰ کی کیفیت اور کمیت دونوں ہمارے احاطۂ ذہنی سے خارج ہیں.