آگے فرمایا: لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ ’’تاکہ تم افسوس نہ کرو اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے‘‘. اللہ کی طرف سے جو حوادث سامنے آتے ہیں وہ امتحان کے لیے ہیں. تکلیف آ جائے تو صبر کرو‘ اللہ کچھ دے دے تو اس کا شکر کرو. فوت ہو جانا اردو میں بھی مستعمل ہے. یہاں فوت ہونا اس معنی میں ہے کہ کوئی موقع تھا جوہاتھ سے نکل گیا‘ کوئی اور شے تھی جو آپ کے ہاتھ سے جاتی رہی ‘ آپ کا کوئی عزیز فوت ہو گیا‘ آپ کا کوئی بچہ آپ کے سامنے دم توڑ رہا ہے اور آپ بہرحال اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے. سورۃ الواقعہ میں ارشاد ہوا: وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡکُمۡ وَ لٰکِنۡ لَّا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۸۵’’اورہم تمہاری نسبت اس (فوت ہونے والے) کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم دیکھ نہیں پاتے‘‘. تمہاری نگاہوں کے سامنے سے ہم تمہارے محبوبوں کو لے جاتے ہیں اور تم کچھ نہیں کر سکتے ‘بس دیکھ رہے ہوتے ہو. تو کوئی شخص یا چیز فوت ہو جائے تو اس پر بھی افسوس نہ کیا کرو. اس لیے کہ وہ شے گئی کہاں ہے؟ اسی کائنات میں ہے. بس اس کی حالت تبدیل ہوئی ہے اور اللہ نے تمہارے امتحان کے لیے ایک صورت پیدا کر دی ہے. ساتھ ہی فرمایا : وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ ؕ ’’اور جو کچھ اللہ دے دے اس پر اترایا مت کرو‘‘. اس لیے کہ یہ بھی امتحان ہی کے لیے ہے‘ یہ بھی بغرضِ آزمائش ہے. اگر اس نے تمہیں دولت دی ہے تو اُس کا حساب بھی تو تمہیں دینا ہو گا. جس کے پاس دولت زیادہ ہے اُس کا حساب بھی بہت بھاری ہوجائے گا. جیسے دولت مندوں کو انکم ٹیکس کی زیادہ فکر ہوتی ہے‘جو شخص hand to mouth ہے اس سے انکم ٹیکس کے کسی افسر کو کیا سروکار!تو وہاں جب حساب دینا ہو گا تو پتا چلے گا کہ ایک ایک پیسے کا حساب دینا ہے. اسی لیے بیلنس شیٹ جب بنتی ہے تو سرمائے کو liabilities کے کھاتے میں ڈالتے ہیں کہ تمہیں اس کا حساب دینا ہے کہ اسے کن کن مدات میں خرچ کیااور اس کے ذریعے کمایا کیا؟ اس حوالے سے ایک بہت پیاری حدیث ہے جس میں پانچ سوالوں کا تذکرہ ہے. حضور اکرم نے فرمایا:

لَا تَزُوْلُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہٖ حَتّٰی یُسْاَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ اَفْنَاہُ وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ اَبْلَاہُ وَمَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اکْتَسَبَـہٗ وَفِیْمَ اَنْفَقَہٗ وَمَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ؟ (۱

’’ابن آدم کے قدم قیامت کے روز اپنے ربّ کے حضور ہرگز نہیں ہل سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ کن کاموں میں کھپائی‘ اور (خاص طور پر) اس کی جوانی کے بارے میں کہ کن کاموں میں گلائی اور اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کن جگہوں پر خرچ کیا‘ اور یہ کہ علم کے مطابق کتنا عمل کیا .‘‘

تو معلوم ہوا کہ جو چیز اللہ دے دے اس پر اِتراؤ مت!اور جو اللہ چھین لے اس پر غم و افسوس نہ کرو! مؤمن کی کیفیت تووہ ہونی چاہیے جیسے سورۃالتغابن میں بیان کیا گیا ہے: 
مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ ؕ ’’نہیں آن پڑتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے حکم سے‘ اور جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ اس کے دل کوہدایت دے دیتا ہے‘‘. یعنی تسلیم و رضا کی ہدایت کہ اللہ کی مرضی یہی تھی ‘اللہ کا فیصلہ یہی تھا. مؤمن مطمئن رہتا ہے کہ اسی میں میرے لیے خیر ہو گا‘ چاہے وہ خیر مجھے نظر آئے یا نہ آئے!

زیر نظر آیات میں بتایا جا رہا ہے کہ تکالیف و مصائب انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں. انسان اگر کسی جدوجہد میں حصہ لیے بغیر 
passive زندگی بسر کر رہا ہو تب بھی ان سے سابقہ پیش آ سکتا ہے. آدمی کو ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے‘کینسر ہو سکتا ہے‘ کوئی اور مصیبت آ سکتی ہے‘ کوئی حادثہ ہو سکتا ہے‘ اور اس طرح اس کی جان جا سکتی ہے. یہ جان (۱) سنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع‘ باب ما جاء فی شان الحساب والقصاص. تو ہر حال میں جانی ہی ہے اور مصیبتوں سے بچنے کی یہاں پر کسی کے پاس کوئی ضمانت نہیں ہے‘تو کیوں نہ انسان کسی اعلیٰ تر نصب العین کے لیے اپنی زندگیactively کھپائے اور اس کے لیے فی الواقع خطرات کا رسک لے. تو یہ تین آیتیں (۲۲ تا ۲۴) مضمون کے اعتبار سے ماقبل دو آیتوں کے ساتھ بھی ملتی ہیں اور اپنے بعد آنے والی آیت۲۵ کے ساتھ بھی مربوط ہیں. 

اس حوالے سے ان آیات پر دوبارہ غور کر لیجیے‘ اگرچہ ہم ان کا مطالعہ کر چکے ہیں. فرمایا: 
مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ’’نہیں پڑتی کوئی پڑنے والی (کوئی مصیبت‘ کوئی بھی ناگوار یاتکلیف دہ صورت حال)‘ نہ زمین میں (کسی بڑے پیمانے پر) نہ ذاتی اعتبار سے تمہاری جانوں میں‘‘ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ ’’مگر یہ کہ وہ ایک کتاب میں درج ہے اس سے پہلے کہ ہم اسے ظاہر کریں‘‘.کتاب سے مراد اللہ کا علم قدیم ہے. اللہ کے علم میں پہلے سے معین ہے کہ یہ ہونا ہے. اس کے حوالے سے میں عرض کر چکا ہوں کہ اللہ کے علم قدیم میں ہر شے پہلے سے موجود تھی‘ یہ وجودِ علمی ہے. جب وہ شے ظاہر ہوتی ہے‘خارج میں آ جاتی ہے تو وہ گویا اس کا وجود ہے جس کو ہم مادی یا عملی وجود کہتے ہیں: اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿ۚۖ۲۲﴾ ’’یقینا اللہ کے لیے تو یہ بات بڑی آسان ہے.‘‘

اب اس کا نتیجہ کیا نکلنا چاہیے ؟ 
لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ ’’تاکہ تم افسوس نہ کرو اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے‘‘. ’’ لَا تَاۡسَوۡا ‘‘ اَسِیَ یَاْسَی (افسوس کرنا‘ غمگین ہونا) سے فعل نہی ہے . سورۃ التغابن کے درس میں میں نے بڑی وضاحت کے ساتھ عرض کیا ہے کہ ایک تو طبعی اثر ہوتا ہے. کسی چیونٹی کے کاٹنے پر آپ کے ہاتھ میں جنبش ہوئی اور آپ نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا کہ یہ کیا ہوا‘ یہ reflex actionہے. اس درجے میں انسان پر کسی شے کا کوئی فوری ردعمل طاری ہو جائے تو یہ بات تسلیم و رضا کے منافی نہیں ہے. جیسے کہ آنحضور کے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ جب عالم نزع میں تھے تو آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے. اس پر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سوال بھی کیا کہ حضور آپ کی آنکھوں میں آنسو؟ آپؐ نے فرمایا :یہ تو اللہ تعالیٰ کی اُس رحمت کا ظہور ہے جو اُس نے انسان کے دل میں رکھی ہوئی ہے‘ لیکن ہم کہیں گے وہی کچھ جو اللہ کو پسند ہے‘ ہم اُس کی رضا پر راضی ہیں. یہ تسلیم و رضا کا مقام ہے‘ یعنی راضی برضائے رب رہنا. کوئی شکوہ اور شکایت کا کلمہ زبان پر نہ آئے. ؎ 

رضائے حق پہ راضی رہ ‘ یہ حرفِ آرزو کیسا؟
خدا مالک ‘ خدا خالق‘ خدا کا حکم‘ تو کیسا!! 

علامہ اقبالؔ اس مقامِ رضا کے بارے میں کہتے ہیں ؎ 

بروں کشید زپیچاکِ ہست و بود مرا
چہ عقدہ ہا کہ مقامِ رضا کشود مرا!

اللہ کی رضا پر راضی رہنے کا معاملہ درحقیقت ایمان کے ثمرات میں سے چوٹی کا ثمرہ ہے. اگر کوئی تکلیف آئی ہے تو اس کا طبعی اثر تو یقینا ہو گا ‘لیکن اس سے زیادہ آپ کے اعصاب پر اور آپ کے احساسات پر اس کی چھاپ نہ پڑنے پائے. آپ کا طرزِ عمل یہ ہو کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس سے یقینا اللہ کو کوئی نہ کوئی خیر ہی منظور ہو گا. ہم short sighted ہیں‘ ہم نہیں دیکھ سکتے. دعائے استخارہ میں رسول اللہ نے ہمیں یہ الفاظ سکھائے ہیں : فَاِنَّکَ تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ ’’یقینا تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا‘‘ وَتَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ ’’تجھے ہر شے کی قدرت حاصل ہے‘ مجھے قدرت حاصل نہیں ہے‘‘.جو بھی تیرا فیصلہ ہے میں اُس پر راضی ہوں ؏ ’’ہر کہ ساقی ٔماریخت عین الطاف است!‘‘ جو بھی کچھ میرے ساقی نے میرے پیالے میں ڈال دیا ہے وہ عین اس کا لطف و کرم ہے. اس کو انسان صبر و شکر کے ساتھ قبول کرے.
نزولِ مصیبت کے وقت 
لِّکَیۡ لَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ ’’جو چیز ہاتھ سے جاتی رہے اس پر افسوس نہ کیا کرو‘‘ کی تلقین کے ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دے دی گئی : وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ ؕ ’’اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جایا کرو‘‘. ’’فَرح‘‘ کہتے ہیں خوشی سے پھولے نہ سمانا.ایک ہے طبعی خوشی ہونا. کوئی ایسی بات ہوئی ہے جو آپ کے جی کو پسند ہے ‘ اس پر فوری طور پر ایک خوشی کا اظہار ہو جانا‘ یہ بھی تسلیم و رضا کے منافی نہیں ہو گا.لیکن اس سے انسان اس حد تک تاثر لے لے کہ خوشی سے پھولا نہ سمائے اور اس پر اتراتا پھرے تو یہ معاملہ درحقیقت فرح ہے‘ جس سے روکا گیا ہے. ’’فرح‘‘ کے لفظ کے اندر ہی یہ چیز موجود ہے جیسے کوئی چیز پھٹ رہی ہو ’’فَرج‘‘ کہتے ہیں سوراخ‘ رخنے یا خلاء کو ‘یعنی کوئی ٹوٹ پھوٹ ہو.اسی طرح ’’فرق‘‘ کاٹنے والی اور علیحدہ کر دینے والی شے کو کہا جاتا ہے. عربی میں جو مادّے لفظی طور پر بہت قریب ہوں وہ مفہوم کے اعتبار سے بھی قریب ہوتے ہیں. تو فرح کہتے ہیں خوشی سے آپے میں نہ رہنا‘ پھولے نہ سمانا. 

اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ کردار

وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۣ ﴿ۙ۲۳﴾ ’’اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ اکڑنے والوں کو اور شیخی خوروں کو پسند نہیں کرتا‘‘. ’’ لَا یُحِبُّ ‘‘ اگرچہ نرم الفاظ ہیں لیکن اصل میں مراد یہ ہے کہ ایسے لوگ اللہ کو بہت ناپسند ہیں. یہ قرآن کا اپنا ایک اسلوب ہے کہ کسی شے کی نفی بسا اوقات سادہ انداز میں ہوتی ہے اور بسا اوقات اس کے اندر ایک زور (emphasis) ہوتا ہے. مُختال کا لفظ خَیْل سے بنا ہے‘ جس کا مطلب ہے اعلیٰ نسل کا گھوڑا. گھوڑے کی چال کے اندر ایک تمکنت ہوتی ہے. جتنی اعلیٰ نسل کا گھوڑا ہو گا اس کی چال میں تمکنت اتنی زیادہ ہو گی. تو ’’اِخْتَالَ‘‘ کا لفظ وہاں سے لیا گیا ہے. آدمی کی چال ڈھال سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے ‘ یہ کسی زعم میں ہے‘ اونچی ہواؤ ں میں ہے‘ اس کو کوئی غرور ہے. تو یہ اختیال ہے. اور فخر وہی لفظ ہے جو ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ ’’تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ ‘‘.

یہ فخر کرنا رنگ و نسل پر ہے‘ حسب و نسب پر ہے‘ مال پر ہے‘ علم پر ہے‘ زہد و تقویٰ پر ہے. پھر اس کو بیان کرتے رہنا‘ اس کا اظہار کرنا‘ اللہ کو یہ چیزیں بالکل پسند نہیں ہیں. الَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ وَ یَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبُخۡلِ ؕ ’’جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کا مشورہ دیتے ہیں‘‘. یہ آیت دراصل اس طرزِ عمل اور اس ذہنیت کا منطقی نتیجہ بیان کر رہی ہے. اگر دنیا میں انسان کو نعمتیں ملی ہیں تو ان پر فرح‘ پھر اختیال اور اس کے بعد فخر‘ یہ تینوں چیزیں درحقیقت اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ انسان کی نظروں میں اصل قدر و قیمت اس دنیا کے مال و اسباب کی ہے. تب ہی تو وہ اس پر فخر کر رہا ہے. سورۃ الہمزہ میں ایک برے کردار کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے : الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ ۙ﴿۲﴾یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ اَخۡلَدَہٗ ۚ﴿۳﴾ ’’جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا. وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اسے دوام عطا کر دے گا‘‘. مال و دولت پر جو یہ دار و مدار اور انحصار ہے تو ظاہر بات ہے کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرا سرمایۂ افتخار میری دولت ہے تو وہ اس دولت کو سنبھال کر رکھے گا‘ خرچ نہیں کرے گا. اس لیے کہ اسی سے تو وہ لوگوں کے اوپر رعب جھاڑ رہا ہے‘ اسی سے تو اس کی عزت ہے. ہمارے اس معاشرے میں خاص طور پر یہ لعنت انتہا کو پہنچ گئی ہے. امیر غریب کا فرق تو پہلے بھی ہوتا تھا‘ دولت مندبھی تھے اور غریب بھی ہوتے تھے‘ لیکن عزت کی بنیاد دولت نہیں بلکہ کردار تھا . مسلمان معاشرے کے اندر وہ کیفیت ہوتی تھی کہ ایک فقیر اور درویش جو کہیں بیٹھا ہوتا تھا لوگوں کا رجوع اس کی طرف ہوتا تھا. اسی طرح علماء کی طرف رجوع ہوتا تھا. ہارون الرشید کی محبوب ملکہ زبیدہ نے حج کے موقع پر ایک بہت بڑی دینی شخصیت (جو غالباً اہل بیت میں سے تھے) کی طرف لوگوں کا التفات دیکھ کر ہارون الرشید سے کہا تھا کہ اصل حکومت تو ان کی ہے جو دلوں پر حکومت کر رہے ہیں‘ تمہاری حکومت تو محض لوگوں کے جسموں پر ہے. 

یہ اَقدار 
(values) جس معاشرے کے اندر موجود ہوں تو چاہے وہاں کچھ اونچ نیچ بھی ہو‘ اخلاق کادیوالہ اس طرح سے نہیں نکلتا جیسے کہ ہمارے معاشرے میں نکل گیا ہے. ہمارے ہاں یہ جانتے ہوئے بھی کہ فلاں کے پاس حرام کی دولت ہے‘ ہیروئن کی کمائی ہے‘ رشوت کا پیسہ ہے یا سود خوری کا معاملہ ہے‘ جس کے پاس دولت ہے اس کے لیے عزت ہے. اس کے سامنے لوگ جھکے جا رہے ہیں‘ بچھے جا رہے ہیں اور اچھے اچھے لوگوں کا طرزِ عمل یہی ہے تو اس سے درحقیقت معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں اخلاق کا دیوالہ نکل گیا‘ اقدار (values) کا بیڑا غرق ہو گیا. تو یہاں الَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ کے الفاظ میں دراصل یہ بات بیان ہو رہی ہے کہ چونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عزت کی بنیاد پیسہ ہے لہذا وہ بخل کرتے ہیں اور پیسے کو سینت سینت کر رکھتے ہیں. وہ اگر پیسہ خرچ کریں گے تو گویا اپنی عزت اور فخر کی بنیاد کو ڈھائیں گے.
اس کے ساتھ ہی دوسری بات یہ کہ 
وَ یَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبُخۡلِ ؕ ’’اور وہ دوسروں کو بھی بخل کرنے پر اکساتے ہیں‘‘. جو شخص خود بخل کرے گا وہ دوسروں کو بھی بخل کا مشورہ دے گا. اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک تو بہرحال لوگوں کی نگاہ میں وہ اپنا بھی تو کوئی بھرم قائم رکھنا چاہتا ہے اور اپنے طرزِ عمل کے لیے justification چاہتا ہے.’’امر‘‘ کا لفظ یہاں حکم کے معنی میں نہیں‘ بلکہ مشورہ کے معنی میں آیا ہے. دوسروں کو بخل کا مشورہ دینے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ بھائی کچھ عقل کے ناخن لو‘ کچھ سوچو‘ تم نے تواپنے دونوں ہاتھ کھلے رکھے ہوئے ہیں‘ تمہارے ہاتھ میں تو معلوم ہوتا ہے سوراخ ہے کہ کوئی شے تمہارے پاس رکتی ہی نہیں ہے. تمہیں چاہیے کہ کچھ آگے کی فکرکرو‘ بچوں کی فکر کرو‘ بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں‘ بچوں کے لیے جائیداد بنانی ہے. تو بڑے ہی ناصحانہ اور خیر خواہانہ انداز میں بخل کا مشورہ دیا جاتا ہے تاکہ ہمارا بخل بھی ڈھکا چھپا رہے.