سورۃ الصف کے مضامین کا اجمالی تجزیہ

اس آیہ مبارکہ کے ایک ایک لفظ پر غور کرنے سے قبل یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ سورۃ الصف کی چودہ آیات درحقیقت اس ایک آیت کی شرح اور تفصیل پر مشتمل ہیں. سورۃ الصف چونکہ ہم پڑھ چکے ہیں لہذا اس کے مضامین کو ذہن میں تازہ کیجیے. اس کے شروع میں ڈانٹ ڈپٹ کا انداز ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ 

’’اے اہل ایمان! تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ طرزِ عمل سخت ناپسندیدہ (اور اللہ کے غضب کو بھڑکانے والا) ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں. اللہ کو تو محبوب ہیں وہ بندے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر جنگ کرتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں.‘‘

اس سورت کا آغاز ہی قتال سے ہوا ہے. پھر چند آیات میں اہل کتاب کا تذکرہ آیا ہے. یہ گویا سورۃ الحدید کے ان الفاظِ مبارکہ کی شرح ہوئی : 
وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُ فَطَالَ عَلَیۡہِمُ الۡاَمَدُ فَقَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ (آیت ۱۶چنانچہ وہاں وضاحت آ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا تھا ‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ انہوں نے کیا کیا‘ اور جب محمد رسول اللہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کس طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا. اس کے بعد آیت آ گئی: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾ 
’’وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول (محمد ) کو الہدیٰ اور دین حق دے کر تاکہ غالب کرے اسے کل کے کل دین پر. (پورے نظام زندگی پر یا تمام ادیان پر) چاہے یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار اور ناپسند ہو.‘‘ ان کی ناگواری کے علی الرغم یہ کرنا ہے! لیکن کریں گے کیسے؟ اہل ایمان میدان میں آئیں گے اور اُنہیں اپنی جانوں کا نذرانہ دینا ہو گا. فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ 

’’اے اہل ایمان! کیا میں ایسی تجارت کی طرف تمہاری رہنمائی کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے؟ پختہ ایمان رکھو اللہ پر اور اس کے رسول پر‘ اور جہاد کرو اس کی راہ میں اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ. یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو.‘‘ 

اگلی دو آیات میں پھر اس بہتری کی وضاحت کی گئی. ایک تو اللہ کے جو اخروی وعدے ہیں وہ بیان کر دیے گئے :

یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ وَ یُدۡخِلۡکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۙ۱۲

’’وہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے دامن میں ندیاں رواں ہو گی‘ اور ابدی قیام کی جنتوں میں تمہیں بہترین گھر عطا فرمائے گا. یہ ہے بڑی کامیابی.‘‘ 

اصل کامیابی تو یقینا وہی ہے‘ اس لیے کہ مقصودِ اصلی تو آخرت ہے‘ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے‘ البتہ ایک اضافی وعدہ یہ بھی ہے:

وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳﴾ 
’’اور وہ دوسری چیز جو تمہیں محبوب ہے (وہ بھی تمہیں دے گا) اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح.(اے نبی ! )اہل ایمان کو بشارت دے دیجئے!‘‘
آخری آیت میں اللہ کی نصرت کی پکار ان الفاظ میں آئی : 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ 

’’اے اہل ایمان! اللہ کے مددگار بنو‘ جیسا کہ عیسٰی ابن مریم ( علیہما السلام) نے حواریوں سے خطاب کر کے کہا تھا کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں؟ (جواب میں) حواریوں نے کہا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار!‘‘