’’بینات‘‘ کے ذکر کے ساتھ ہی فرمایا کہ ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ دو چیزیں مزید اُتاریں وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ ’’اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب بھی اتاری اور میزان بھی‘‘. کتاب کا لفظ تو عام فہم ہے‘ بالکل واضح ہے‘ سب سمجھ جائیں گے‘ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات دی گئی. لیکن یہاں میزان سے مراد کیا ہے؟میزان ’’وزن‘‘سے اسم آلہ ہے. اصل میں یہ ’’مِفعال‘‘ کے وزن پر ’’مِوزان‘‘ ہے. ’’و‘‘ یہاں پر ’’ی‘‘ کی شکل اختیار کر گیا اور ’’میزان‘‘ ہو گیا. وزن کرنے کا آلہ یعنی ترازو کو میزان کہا جاتا ہے. لیکن توازن کئی قسم کا ہے. یہاں کس قسم کا توازن مراد ہے جسے قائم کرنے کے لیے میزان اتاری گئی ہے؟ سورۃ الرحمن کے درس کے دوران میں نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا کہ اس کائنات کے اندر ایک آفاقی توازن ہے. تمام اجرامِ فلکی کے درمیان ایک بیلنس قائم ہے جس کا ذکر وہاں بایں الفاظ کیا گیا: وَ السَّمَآءَ رَفَعَہَا وَ وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ ۙ﴿۷﴾اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ ﴿۸﴾ ’’ آسمان کو اُس نے بلند کیااور میزان قائم کر دی. اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو‘‘. درحقیقت یہاں مراد وہ بیلنس ہے جو تمام اجرامِ فلکی کے درمیان ہے. یہ تمام ستارے اور سیارے جو فضا کے اندر گردش میں ہیں ان کے مابین کشش ان کے باہمی فاصلوں کی نسبت سے ہے. چنانچہ یہ ایک دوسرے کو اپنی طرف اس انداز سے کھینچتے ہیں کہ ہرکرہ اپنی جگہ پر قائم ہے . (۱)
اسی طرح انسان کو زندگی گزارنے کا جو نظام اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے وہ نظام ایک میزان ہے‘ جس میں حقوق و فرائض کا توازن ہوتا ہے کہ فلاں کا یہ حق ہے اور یہ اس کا فرض یا اس کی ذمہ داری ہے. حقوق و فرائض کے بارے میں ایک عمومی اصول یہ ہے کہ جہاں زیادہ ذمہ داری ہو گی وہاں اختیار بھی زیادہ ہو گا. چنانچہ حقوق اور فرائض میں اگر توازن ہو گا تو وہ معاشرہ صحیح رہے گا‘اور اگر اس کے اندر عدم توازن راہ پا گیا تو اسی کا نام ظلم‘ عدوان ‘ زیادتی اور ناانصافی ہے. تو درحقیقت اللہ تعالیٰ نے جو شریعتیں نازل فرمائیں ان سب کا مقصد یہ ہے کہ انسانی معاشرے میں حقوق و فرائض کا توازن قائم رہے. مثلا ً تین چیزوں کے اندر توازن کا معاملہ ایسا ہے کہ انسان کے لیے اس کا حصول آسان نہیں ہے.
ان میں قدیم ترین مسئلہ یہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان توازن کیا ہو؟ ظاہر بات ہے دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں‘ عورت مرد کی محتاج ہے اور مرد عورت کا محتاج ہے‘ لیکن ان کے مابین حقوق و فرائض کا توازن نہیں ہو پاتا .یا تو عورت کو ملکیت بنا لیا جاتا ہے‘ جوتی کی نوک سمجھا جاتا ہے‘ اسے یہ حیثیت دی جاتی ہے کہ نہ تو اس کے کوئی حقوق ہیں اورنہ ہی اس کا کوئی مقام و مرتبہ ہے اور یا پھر عورت مرد کے بالکل شانہ بشانہ ہو کر اپنی حدود سے تجاوز کر جاتی ہے‘ بلکہ قلوپطرہ کی صورت اختیار کر کے پورے پورے ملکوں کی قسمت کی نیا ڈبودیتی ہے. چنانچہ ان کے مابین توازن کی ضرورت ہے. عورت بھی یقینا انسان ہے‘ اس کے حقوق بھی ہیں‘ اس کے احساسات بھی ہیں. اس کا اپنا ایک مقام ہے‘ معاشرے کے اندر اس کی ایک حیثیت ہے. وہ ماں‘ بہن‘ بیٹی اور بیوی ہے‘ اس کی عزت بھی ہونی چاہیے‘لیکن اسے اس طرح کی آزادی نہیں دی جا سکتی کہ (۱) اجرامِ فلکی کے باہمی توازن کے بارے میں علامہ اقبال نے کیا خوبصورت بات کہی ہے ؎
ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں!
(مرتب) خاندانی نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے. بلکہ حقوق و فرائض میں توازن پر مبنی ایسا معاشرتی نظام ہونا چاہیے کہ فیملی ایک منظم‘ مستحکم اور متحد (integrated) ادارہ ہو‘ اس کے اندر نظم و ضبط ہو.اس لیے کہ پورے معاشرے کے امن و سکون کا انحصار اسی ادارے پر ہے. معاشرہ خاندانوں کے مجموعے کا نام ہے. دس ہزار‘ بیس ہزار‘ دس لاکھ یا بیس لاکھ خاندان ہیں جن کا نام معاشرہ ہے. معاشرے کی اس عمارت کے اندر اگر ہر اینٹ مستحکم نہیں ہے‘ اگر ہرخاندان کا ادارہ منظم نہیں ہے تو معاشرے میں انتشار اور chaos ہو گا.
لیکن یہ سب کیسے ہو؟ یہ کون طے کرے کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور فرائض کیا ہیں؟ اسی طرح مرد کے حقوق کیا ہیں اور فرائض کیا ہیں؟ یہ آسان کام نہیں ہے. اس عقدے کا حل کرنا آسان نہیں. اگرمرد نظام بنائے گا تو ظاہر بات ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق کو سامنے نہیں رکھ سکتا. اس کی تو اپنی نفسیات ہے. اسے صرف اپنے احساسات معلوم ہیں ‘لہذا وہ لازمی طور پر اپنا پلڑا بھاری رکھے گا اور اگر عورت کو موقع مل جائے تو ظاہر بات ہے اس کو صرف اپنے احساسات کا پتا ہے‘ وہ مرد کی حیثیت سے سوچ ہی نہیں سکتی‘ وہ اس کی کیفیات کو محسوس کر ہی نہیں سکتی. لہذا وہ اپنا نظام بنائے گی. چنانچہ انسان محتاج ہے کہ وہ ایک متوازن نظام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے جو سب کاخالق ہے.
دوسرا پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ انفرادیت اور اجتماعیت میں کیا توازن ہو؟ دنیا میں کہیں تو ملوکیت اور آمریت کے زیر ا ثر totalitarian society قائم ہو جاتی ہے. کوئی آمر مطلق اقتدار پر مسلط ہے اور لوگوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں.نہ وہ اظہارِ خیال کر سکتے ہیں‘ نہ جماعت بنا سکتے ہیں. اس طرح کی آمریت اور ملوکیت میں فرد کچلا جاتا ہے. اس کے برعکس معاملہ یہ ہوتا ہے کہ مکمل انفرادی آزادی ہوتی ہے جو آج مغرب میں ہے کہ جو چاہے کرو‘ چاہے ننگے ہو کر بازاروں میں نکل آؤ. دو مرد باہم شادی کرنا چاہیں تو انہیں اس کی آزادی ہے. ہم جنسیت (Homo sexuality) کے حق میں دلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں اور لمبے چوڑے قوانین وضع کیے جا رہے ہیں . یہ دوسری انتہا ہے کہ فرد کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے اور آپ کو اس کی آزادی میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں.وہ جس طرح سے چاہتا ہے اپنی جنسی خواہش پوری کرے‘ آپ اسے روک نہیں سکتے. جب ایک مرد اور ایک عورت اپنی آزاد مرضی سے زنا کریں تو یہ جرم ہے ہی نہیں‘ البتہ اگر بالجبر زنا (rape) ہوا ہوتو وہ جرم ہے. ہر مرد و زن اپنے جسم کا مالک ہے‘ اسے اس پر پورا اختیار ہونا چاہیے‘ زیادہ سے زیادہ شوہر یہ کہہ سکتا ہے کہ میرے حق پر دست درازی ہو گئی ہے. وہ جا کر سول کورٹ میں کیس کرے. اگر کسی کی بیوی اپنی مرضی سے کسی دوسرے شخص کے ساتھ تعلقات قائم کر لیتی ہے تو اس معاملے میں کوئی کریمنل کیس نہیں بنے گا . اب یہ آزادی کی انتہا ہے‘ جسے مادرپدر آزادی کہا جاتا ہے. مغربی معاشرہ اس انتہا کو نکل گیا ہے. اب فرد اور اجتماعیت میں کیا توازن ہو؟ یہ دوسرا نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے.
انسانی معاشرے کا تیسرا پیچیدہ مسئلہ جو حال ہی میں پیدا ہوا ہے وہ محنت اور سرمائے کے درمیان توازن کا ہے. یہ مسئلہ دراصل صنعتی انقلاب کے بعد پیدا ہوا ہے‘ اس سے پہلے یہ مسئلہ نہیں تھا .ایسے بڑے بڑے کارخانوں کا کوئی تصور ہی نہیں تھا کہ جن میں بیس بیس‘ تیس تیس ہزار آدمی کام کررہے ہوں. لہذا بڑا سادہ سا مبادلہ ہوتا تھا. جس نے کھیت میں کام کیا‘ ہل چلایا اور گندم اگائی ‘ وہ گندم کی کچھ مقدارلے کر اُس جولاہے کے پاس چلا جاتا جو کرگے یا کھڈی پر بیٹھا کھدر بن رہا ہوتا اور گندم کے عوض اس سے کھدر لے لیتا. اس طرح دونوں کی ضرورت پوری ہو جاتی. یہ مبادلہ (بارٹر سسٹم) پر مبنی سادہ ترین معیشت تھی‘ لیکن اس کے بعد پھر سرمایہ وجود میں آیا. اب سونے کو کرنسی کا درجہ حاصل ہو گیا اور یہ طے کیا گیا کہ ایک تولہ سونا برابر ہے اتنے من گندم کے. چنانچہ جس نے اپنے پاس سونا جمع کر لیا اس کے پاس طاقت ہے‘ وہ جب چاہے گا مارکیٹ کو destabilize کر دے گا .وہ جب چاہے گا گیہوں کی بہت بڑی مقدار خرید لے گا اور قیمت بڑھا دے گا اور جب چاہے گا اسے منڈی میں لے آئے گا. پھر ذخیرہ اندوزی اور دولت کا ارتکاز اسی سے شروع ہوا. کوئی شخص اپنے پاس کتنی گندم جمع کر سکتا تھا اور اسے کتنی دیر رکھ سکتا تھا؟ لیکن سونا تو آپ جتنا چاہیں اور جب تک چاہیں رکھ سکتے ہیں. سونا خراب نہیں ہوتا ‘اس کا کچھ بگڑتا نہیں. ایچ جی ویلز (۱۸۶۶ء تا ۱۹۴۶ء) نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے کہ انسان کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ کرنسی کی ایجادسے وہ کتنی بڑی لعنت کا طوق اپنی گردن میں ڈال رہا ہے . ا س کے بعد پیپر کرنسی آئی تو اس سے مزید کئی لعنتوں کے دروازے کھلتے چلے گئے. اس پیپر کرنسی کی بدولت آج پوری نوعِ انسانی کی معیشت کا حال شیش محل کی مانند ہے ؎
لو سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا!
پھر یہ کہ بڑے بڑے کارخانے ہیں‘ جن کے مالک سرمایہ دار ہیں. یہاں مزدور اور سرمایہ دار کے درمیان ایک کشمکش چل رہی ہے.کارل مارکس کا سارا فلسفہ لیبر کی سرپلس ویلیو پر چلا ہے‘ جس کی بنیاد پر اتنا بڑا انقلاب آیا اور خون خرابہ ہوا. وہ سارا مسئلہ یہ ہے کہ مزدور اپنے حقوق کا اور سرمایہ دار اپنے سرمائے کا تحفظ چاہتا ہے. سرمایہ دار کارخانہ بند کر کے مزدور کو بے روزگارکر سکتا ہے. مزدور غریب کو معلوم ہے کہ اگر چار دن مجھے مزدوری نہیں ملی تو میرے گھر کے اندر فاقہ آ جائے گا‘ میرے بچے کے پینے کے لیے دودھ کہاں سے آئے گا؟ لہذا وہ کارخانے کے مالک کے رحم و کرم پر ہے کہ وہ اُسے جو اُجرت دے گا اس پر وہ کام کرنے پر مجبور ہے. یہ استحصال کی بدترین شکل ہے جو سرمایہ داری کی صورت میں مسلط ہے.
تو یہ ہیں اصل میں تین مسائل جن میں حقوق و فرائض کے مابین توازن پر مبنی نظام سوائے اللہ کے کوئی نہیں دے سکتا. یہ حقیقت ہے جس کو اگر لوگ سمجھ لیں تو شریعت کی عظمت اور اہمیت سامنے آئے گی. اسی لیے شریعت کو میزان کہا گیا. یہاں میزان سے ترازو مراد نہیں ہے کہ اللہ نے آسمان سے ترازو اتاری ‘بلکہ یہ کہ اُس نے کتاب اتاری. اور کتاب کے ساتھ شریعت کا جو نظام اتارا ہے وہ حقوق و فرائض کا ایک متوازن ‘ balanced‘ منصفانہ اور عدل وقسط پر مبنی نظام ہے جو اُس نے عطا کیا ہے.