منہج انقلابِ نبویؐ کے ضمن میں پہلے objectively سمجھ لیجیے کہ حضور کی سیرت کے کیا مراحل تھے اور ان میں حکمت ِترتیب کیا تھی. پہلے تیرہ برس تک یعنی پوری مکی زندگی میں یہ حکم تھا کہ چاہے تمہارے ٹکڑے اڑا دیے جائیں ‘ تم ہاتھ نہیں اٹھاؤ گے. لیکن ہجرت کے بعد حکم آ گیا کہ وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ (البقرۃ:۱۹۰’’اور اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں‘‘. اور وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ (الانفال:۳۹’’اور ان(کافروں) سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین کل کا کل اللہ کے لیے ہو جائے‘‘.ان دو طرح کے احکام میں بظاہر زمین و آسمان کا فرق ہے‘ لیکن درحقیقت یہ ایک پراسیس کے دو مختلف مراحل ہیں. اسی طرح ایک وقت میں آنحضور دب کر صلح کر رہے ہیں.

صلح حدیبیہ کی شرائط یقینا بڑی غیر مساوی (unequal) تھیں اور یہ معاہدہ ہونے کے بعد مسلمان بہت رنجیدہ و دل گرفتہ ہو گئے تھے . یہی وجہ تھی کہ جب رسول اللہ نے انہیں وہیں قربانی کے جانور ذبح کر کے احرام کھولنے کا حکم دیا تو ان میں سے ایک آدمی بھی نہیں اٹھا. مسلمانوں کے دل اس درجے زخمی تھے کہ ہم کیوں دب کر صلح کر رہے ہیں لیکن ایک سال کے بعد قریش کا سردار ابوسفیان چل کر مدینہ منورہ آتا ہے اور وہ خوشامدیں کر رہا ہے‘ سفارشیں کروا رہا ہے کہ خدا کے لیے صلح کی تجدید کر لیجیے‘ لیکن حضور نہیں کر رہے‘ کیوں؟ اس لیے کہ اب محمد رسول اللہ کی جدوجہد دعوت کے مرحلے سے نکل کر جہاد و قتال کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اسی کے بارے میں تو ٹائن بی (۱۸۸۹ء تا ۱۹۷۵ء)نے کہا تھا :

".Muhammad failed as a prophet but succeeded as a statesman" 

اس لیے کہ اس کی آنکھیں صرف ظاہر کو دیکھ رہی تھیں‘ آنحضور کے منہج انقلاب کی حکمت ِترتیب سے واقف نہیں تھیں ‘ لہذا اسے حضور کی زندگی میں تضاد نظر آیا اور اس نے اسے واضح کیا. ان مستشرقین کو مکہ والے محمد تو نبی نظر آتے ہیں‘ جیسے حضرت یحیی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام تھے . انہیں نظر آتا ہے کہ مکہ والا محمد( ) یقینا یحیی ؑاور عیسٰی ؑکی طرح دعوت دے رہا ہے‘ تبلیغ کر رہا ہے‘ ماریں کھا رہا ہے‘ گالیاں سن رہا ہے‘ لیکن وہی محمد رسول اللہ مدینہ میں آ کر ایک مدبر ہے‘ حکمران ہے‘ جنگجو ہے‘ سپہ سالار ہے. اور ڈاکٹر منٹگمری واٹ (۱۹۰۹ء تا۲۰۰۶ء)نے اسی فلسفے کے زیر ا ثر آنحضور کی حیاتِ طیبہ کے ’’تضاد‘‘ کو ظاہر کرنے کے لیے Mohammad at Mecca اور Mohammad at Medina دو کتابیں تصنیف کر ڈالیں. ان کی نظر میں مکہ والا محمدؐ تو بالکل ہی کچھ اور تھا اور مدینہ والا محمدؐ بالکل کچھ اور نظر آتا ہے. معاذ اللہ! وہ شخصیت ایک ہی ہے ‘ان کا انقلاب کا پراسیس ایک ہی ہے‘ لیکن اس پراسیس کے مختلف مراحل ہیں. اس انقلاب کا پہلا مرحلہ مکی دور پر مشتمل ہے‘ جس کے بارے میں اقبال نے کہا ہے ؏ 

با نشہ درویشی در ساز و دما دم زن!
اور دوسرا مرحلہ اسی شعر کے دوسرے مصرعے میں یوں بیان کر دیا ؏ 
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن!!
ظاہر ہے اس کے بغیر کوئی انقلاب آ ہی نہیں سکتا. 

یہ ہے اصل میں اسلامی انقلاب کا پراسیس جو اس آیت میں بڑے واشگاف الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرما دیا. رسولوں کے ساتھ بینات‘ کتاب اور میزان اتارے جانے کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: 
وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ ’’اور ہم نے لوہا بھی اتارا‘‘. پنجابی میں کہا جاتا ہے :’’چار کتاباں عرشوں آئیاں‘ پنجواں آیا ڈنڈا‘‘. اس ڈنڈے کی اپنی اہمیت و ضرورت ہے.کیا قرآن حکیم صرف اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس کی تلاوت کرتے رہیے‘ تراویح میں پڑھتے رہیے اور ثواب لیتے رہیے ؟ جبکہ قرآن خود یہ کہتا ہے:

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ (المائدۃ:۶۸)
’’اے اہل کتاب! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو (تمہاری کوئی حیثیت ہماری نگاہ میں نہیں ہے)جب تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے ‘اس کو قائم نہیں کرتے .‘‘

قرآن پڑھتے رہو ‘ قرآن سنتے رہو‘ قرآن یاد کرتے رہو‘ حسن قرا ء ت کے مقابلے منعقد کرو‘ جشن نزولِ قرآن مناتے رہو لیکن اگر تم قرآن کو قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو پھر گویا قرآن تم سے بایں الفاظ مخاطب ہے : 
یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا الْقُرْآنَ ’’اے قرآن والو! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک تم قرآن کو قائم نہیں کرتے‘‘.قرآن قائم کرو‘ یہ میزانِ عدل ہے‘ اسے نصب کرو.اس نے جو نظام دیا‘ وہ عدل و قسط پر مبنی ہے. جس کا جو حق ہے وہ اس کو دو اور جس کی جو ذمہ داری ہے اس کے اوپر عائد کرو. اگر یہ نہیں کرتے تو پھر صرف اس کی تلاوت کا جو ثواب لے رہے ہو ‘اس سے کہیں بڑھ کر اس کوتاہی کا گناہ ہو سکتا ہے جو تم اس کی طرف سے برت رہے ہو.