فرمایا: وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ ’’اور ہم نے بھیجا نوحؑ کو اورابراہیم ؑ کو‘‘ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ ’’اور ہم نے رکھ دی انہی دونوں کی نسل میں نبوت اور کتاب‘‘. یہ معاملہ تاریخ نبوت و رسالت کے اعتبار سے محققین کے لیے نہایت اہم رہنمائی کا حامل ہے. یہاں یہ مضمون ضمنی طور پر آیا ہے ‘ اور میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ قرآن حکیم میں اہم ترین علمی مضامین اکثر و بیشتر ضمنی طور پر آتے ہیں. ایک ہے قرآن کی ہدایت ‘ تذکرہ‘ ذکریٰ ‘ یاد دہانی‘ وہ تو قرآن مجید میں آپ کو سطح پر ملے گی‘ وضاحت سے ملے گی‘ بتکرار و اعادہ ملے گی‘ اور ایسی سطح پر ملے گی جس کو ایک عام انسان بھی بآسانی سمجھ لے. لیکن جو علمی نوادر اور اعلیٰ علمی و عقلی نکات ہیں وہ آپ کو ضمنی طور پر اس انداز سے ملیں گے کہ عام آدمی تواس پر سے گزر جائے‘ یہاں رکے نہیں‘اس کا ذہنی تسلسل ٹوٹنے نہ پائے اور وہ تذکرہ کے عمل میں کہیں کوئی رخنہ نہ پائے‘لیکن جس شخص کے ذہن میں علمی اشکالات اور سوالات ہیں‘ جو کسی تحقیق میں سرگرداں ہے‘ وہ وہاں پرپہنچے تو رک جائے اور پھر وہ اپنا ہائی پاور لینز (lense) فوکس کر کے بیٹھ جائے کہ جا ایں جاست! اسے محسوس ہو کہ اس مقام سے تو مجھے بڑی رہنمائی مل رہی ہے.

اس ضمن میں اب ہم تجزیہ کرتے ہیں .جہاں تک حضرت نوح علیہ السلام کا معاملہ ہے وہ تو بالکل واضح ہے.اس لیے کہ آپؑ آدمِ ثانی ہیں‘ پوری موجودہ نسل انسانی حضرت نوحؑ کی اولاد سے ہے. قرآن مجید سے بھی اس کی گواہی ملتی ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: وَ جَعَلۡنَا ذُرِّیَّتَہٗ ہُمُ الۡبٰقِیۡنَ ﴿۫ۖ۷۷﴾ (الصّٰفّٰت) ’’ہم نے صرف اسی کی نسل کو باقی رکھا‘‘. حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام تک ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ زمانی فصل کتنا ہے. لیکن بہرحال اس دور میں جتنی بھی نسلیں آدم علیہ السلام کی پھیلی ہیں وہ سب کی سب ہلاک کر دی گئیں‘ سوائے حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کے.گمانِ غالب یہ ہے کہ سوائے ان کے اپنے بیٹوں اور ان کی بیویوں کے اور کوئی بھی باقی نہیں بچاتھا. واللہ اعلم! لیکن اگر کوئی تھے بھی تو ان کی نسل آگے نہیں چلی. نسل صرف حضرت نوح علیہ السلام کی چلی ہے. آج پوری نسلِ انسانی حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں حضرت سام‘ حضرت حام اور حضرت یافث کی اولاد سے ہے. یعنی آج دنیا میں جتنی بھی اقوامِ عالم ہیں‘ سب کی سب انہی تینوں کی نسلوں سے ہیں. لہذا اس میں تو کوئی اشکال اور اشتباہ نہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تک نبوت حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد ہی میں رہی.

البتہ حضرت ابراہیم ؑکا معاملہ بہت اہم ہے. ظاہر بات ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے بعد جب ان کی نسل آگے چلی تو دُنیا میں اور اقوام بھی موجود تھیں. حضرت سام کی اولاد کی بھی اور بہت سی شاخیں ہیں. ان کے علاوہ حضرت حام اور حضرت یافث کی اولاد سے کئی نسلیں اور ان کی شاخیں ہیں.لیکن قرآن معین طور پر کہتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت اور کتاب کا معاملہ صرف نسل ابراہیمی کے ساتھ مختص کر دیا گیا. اور جیسا کہ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ اہم مضامین قرآن مجید میں کم سے کم دو جگہ ضرور آتے ہیں. لہذا اس مضمون کا مثنیٰ سورۃ العنکبوت کی آیت ۲۷ ہے‘ جہاں تعین کے ساتھ واحد کے صیغے میں حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں یہ بات کہی گئی : وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ ’’ہم نے ابراہیم ؑ کو اسحاق ؑ (جیسا بیٹا) اور یعقوبؑ (جیسا پوتا) عنایت فرمایا اور ہم نے اس کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی‘‘. نوٹ کیجیے کہ یہاں ’’فِیْ ذُرِّیَّتِھِمْ‘‘ نہیں‘ بلکہ واحد کی ضمیر کے ساتھ ’’فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ ‘‘ فرمایا. وَ اٰتَیۡنٰہُ اَجۡرَہٗ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۲۷﴾ ’’اور ہم نے اُسے اس دنیا کی زندگی میں بھی اس کا اجر بھرپور طریقے پر عطا فرمایا ‘اور آخرت میں تو وہ یقینا ہمارے نیکوکاربندوں میں سے ہو گا‘‘.اب اس سے جو بات سامنے آ رہی ہے اس پر غور کیجیے.

حضرت ابراہیم علیہ السلام آج سے کم از کم چار ہزار برس قبل کی شخصیت ہیں. میرا اندازہ چار سے ساڑھے چار ہزار برس تک کا ہے. اس لیے کہ مصر سے بنی اسرائیل کا خروج 
(Exodus) چودہ سو قبل مسیح سے لے کر تیرہ سو قبل مسیح تک کے درمیان کا زمانہ ہے. چنانچہ ۳۴۰۰ برس تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہو چکے ہیں. اب ان سے پہلے کئی سو برس حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مابین گزرے ہیں‘ جس کے دوران بنی اسرائیل کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوا کہ صرف ستر بہتر افراد کا قافلہ جو مصر میں داخل ہوا تھا وہ وہاں سے چھ لاکھ کی تعداد میں نکلا ہے. یعنی اس میں خاصا وقت لگا ہے. میں سمجھتا ہوں کہ یہ کم از کم پانچ سو برس کا معاملہ ہے‘ جن میں سے ان کے دو اڑھائی سوبرس تو بڑے عیش و آرام میں گزرے‘ جیسے کہ پیر زادے ہوتے ہیں. اس لیے کہ حضرت یوسف علیہ السلام سے اُس وقت کے شہنشاہِ مصر کو جو عقیدت ہو گئی تھی اس کے نتیجے میں انہیں اور ان کے خاندان کو ازحد عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا.اس کے علاوہ کچھ اور تاریخی عوامل بھی تھے. اُس دور کے شہنشاہانِ مصر ’’چرواہے بادشاہ‘‘ (Hyksos Kings) قبطی النسل لوگ نہیں تھے‘بلکہ وہ عرب ہی کے کسی علاقے سے آئے تھے‘ لہذا سیاسی مصلحت کے تحت انہیں ضرورت تھی کہ کوئی ایسی قوت وہاں موجود رہے جسے وہاں کی مقامی آبادی قبطی نسل کے لیے کاؤ نٹرویٹ کی حیثیت حاصل رہے. 

دوسری طرف حضرت یوسف علیہ السلام سے گرویدگی اور عقیدت مندی کا بھی یہ نتیجہ تھا کہ حضرت یوسف ؑ کے خاندان کو ’’جشن‘‘ کے علاقے میں آباد کیا گیا جو مصر کا بہترین اور نہایت زرخیز علاقہ تھا. لیکن جب وہاں ایک قومی انقلاب آ گیااوروطن کے سپوتوں 
(sons of the soil) یعنی قبطیوں نے چرواہے بادشاہوں کا تختہ اُلٹ دیا اور پھر وہاں پر فراعنہ کا دَور دوبارہ آ گیا تو اس کے بعد وہی لوگ جو کہ پہلے منظورِ نظر اور مراعات یافتہ تھے‘ وہی عتاب کا نشانہ بن گئے. بنی اسرائیل چونکہ دشمن کے منظورِ نظر تھے لہذا قبطیوں کی نظر میں دشمن ٹھہرے. بنی اسرائیل پر عتاب کا یہ دور بڑا طویل ہے‘ جس کے دوران نامعلوم کتنے ہزار افراد ہلاک کیے گئے. ان میں سے بہت سے اہرامِ مصر کی تعمیر کے دوران سرمہ بن گئے .ان کے اوپر بڑی بڑی چٹانیں گریں اور ان کا نام و نشان نہ رہا. قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے کہ ان پر کم از کم دو مرتبہ ایسا دَور بھی آیا جب فراعنہ مصر نے حکم دے دیا کہ ان کی نوزائیدہ اولاد میں سے بیٹوں کو قتل کر دو‘ صرف بیٹیوں کو زندہ رکھو. اس کے باوجود مصر سے خروج کے وقت ان کی تعداد چھ لاکھ تھی.

یہ بات بھی واضح رہے کہ جہاں تک ہماری تاریخی معلومات کا تعلق ہے وہ اس دور سے زائد ہیں ہی نہیں. انسان آج تک بس پانچ ہزار سال کی تاریخ کی تحقیق کر پایا ہے. پاکستان کے دو قصبوں موہنجو دڑو اور ہڑپہ کے علاوہ ہریانہ (مشرقی پنجاب) میں اسی دور کی تہذیب کے کھنڈرات دریافت ہوئے ہیں. مصر اور عراق کے اندر بھی اسی دور کی انسانی تہذیب کے آثار ملتے ہیں. ہمارے عام تحقیق اور انکشافات کے ذرائع اس سے آگے نہیں پہنچ پائے. متذکرہ بالا دو آیات کی رو سے ان چار ساڑھے چار ہزار سال کے دوران نبوت کا معاملہ صرف نسل ابراہیمی میں ہو سکتا ہے. 

یہاں درحقیقت ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے. ایک طرف قرآن یہ کہتا ہے : 
وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ﴿۲۴﴾ (فاطر) ’’کوئی ایسی بستی نہیں ہے کہ جس میں کوئی نہ کوئی خبردار کرنے والا نہ گزرا ہو‘‘. پھر سورۃ الرعد میں فرمایا: وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ ٪﴿۷﴾ یعنی ہر قوم کے لیے ہم نے ہادی بھیجے.تو اب ان دونوں باتوں کے درمیان مطابقت کیسے ہو‘یہ ایک بڑا علمی مسئلہ ہے. اس اشکال کے حل کے لیے ہم پہلے دنیا کی باقی اقوام پر ایک نظر ڈالتے ہیں. مثلاً چین کی تہذیب بڑی قدیم تہذیب ہے. اور یہ معلوم ہے کہ چین‘ روس ‘سینٹرل ایشیامیں وسطی سلسلۂ کوہ سے پرے آباد ہونے والی اقوام‘ پھر یورپ کے میدانی علاقے اور مغربی یورپ کے اندر ا ترنے والی ناروی نسلیں (Nordic Races) یہ سب حضرت یافث کی نسل سے ہیں.اسی طرح اِدھر ایران‘ ہند اور سندھ اور اُدھر شمالی افریقہ کے علاقے قبط اور سوڈان میں حضرت حام کی اولاد آباد ہے . حضرت سام کی اولاد اس تکون میں نیچے اتر گئی ہے.آج کل جو علاقہ کردستان کہلاتا ہے یہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کا مسکن ہے‘ جس کو ’’جزیرہ‘‘ بھی کہا جاتاہے. فرات اور دجلہ کے درمیان شمال میں جا کر وہ علاقہ کافی چوڑا ہو جاتا ہے. یہاں پر حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت ہوئی. وہاں سے نیچے جنوب کی طرف جزیرہ نمائے عرب تک جو قومیں اتر گئیں‘ وہ حضرت سام کی اولاد ہیں. اس میں عراق اور شام کے باشندوں کے علاوہ پورے جزیرہ نمائے عرب کے لوگ بھی آتے ہیں. اس سامی نسل کے اندر بھی بہت سے انبیاء و رسل مبعوث ہوئے ہیں. قرآن مجید بار بار جن قوموں کا تذکرہ کرتا ہے ان میں قومِ عاد اور قومِ ثمود کا تعلق اس سامی نسل ہی سے تھا‘ جن کی طرف بالترتیب حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام بھیجے گئے تھے. یہ دونوں رسول حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قبل کے ہیں.

حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قبل حضرت حام اور حضرت یافث کی اولاد میں بھی انبیاء کا ہونا بالکل قرین قیاس ہے‘ لیکن چونکہ ریکارڈ موجود نہیں لہذا ہم تعین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے. ہمیں کچھ حکماء کا تذکرہ تو ملتا ہے‘ مثلاً کنفیوشس کوئی بڑا حکیم و دانا انسان تھا‘ لیکن اس کا نبوت و رسالت کے ساتھ کوئی رشتہ و تعلق تھا یا نہیں‘ اس کے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں. ہندوستان کے ایک عالم دین شمس نوید عثمانی صاحب نے اپنی ایک کتاب میں ایک نظریہ پیش کیا ہے جو بہت مدلل ہے. انہوں نے ہندوستان کی پرانی کتابوں اور سنسکرت کے اشلوکوں کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی نسل ہندوستان میں بھی آ کر آباد ہوئی اور حضرت نوح علیہ السلام کے ماننے والے ہندوستان میں موجود رہے ہیں. مہا نوح 
(The Great Noah) کا تذکرہ ان کے ہاں ’’منو‘‘ کے نام سے موجود ہے. عثمانی صاحب کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو جو صحیفے دیے تھے اور جو شریعت عطا کی تھی اس کے باقیات الصالحات ’’منوسمرتی‘‘ نامی کتاب کی شکل میں موجود ہیں. یہ تمام چیزیں عین ممکن ہیں‘ قرین قیاس ہیں.

اس کے علاوہ‘ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے‘ عین قرین قیاس ہے کہ ان ساڑھے چار ہزار سال کے دوران حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے کوئی شاخ ہندوستان آ کر آباد 
ہوئی ہو. اس لیے کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے دو بیٹوں کا تذکرہ آتا ہے: حضرت عیس یا عیسو‘ اور حضرت یعقوبؑ . یہ دونوں توام یعنی جڑواں بھائی تھے. پہلے حضرت عیس یا عیسو کی ولادت ہوئی ‘ان کے عقب میں یعقوب علیہ السلام پیدا ہوئے. ان کا نام یعقوب ؑ اسی لیے مشہور ہوا. ’’اور یعقوب اپنے بھائی عیسو کی ا یڑیاں پکڑے ہوئے تولد ہوا‘‘. حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل یعنی بنی اسرائیل کے انبیاء کی تاریخ تو ہمیں’’عہد نامہ قدیم‘‘ کے ذریعے ملتی ہے‘لیکن حضرت عیس یا عیسوکا کیا معاملہ ہوا‘ اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے. ان کی اولاداَدوم کے علاقے کی نسبت سے اَدومی کہلاتی ہے‘اور اُدمی کا لفظ ہندوستان کے ناموں میں کثرت کے ساتھ ملتا ہے. تو کوئی عجب نہیں کہ حضرت عیس کی نسل اس علاقے میں آباد ہوئی ہو اور ان کی نسل کے اندر کوئی نبی یا رسول آیا ہو.

پھر یہ کہ ۱۴۰۰ ق م میں بنی اسرائیل کا جو خروج ہوا اس کے نتیجے میں ان کے کچھ قبائل لاپتہ ہو گئے تھے‘ جنہیں 
’’.The lost tribes of the house of Israel‘‘ کہا جاتا ہے. اس کے بارے میں بھی گمان موجود ہے کہ ان کے کچھ قبائل یہاں آ کر آباد ہو گئے ہوں. اور مجھے تو گمان غالب کی حد تک محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ’’برہما‘‘ اور ’’برہمن‘‘ کا جو تصور ہے اس کا درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کوئی رشتہ ضرور ہے. مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ کی یہ بات میں نے کئی مرتبہ عرض کی ہے کہ ان کے نزدیک گوتم بدھ نبی تھے. قرآن مجید میں دو مرتبہ ’’ذوالکفل‘‘ کا تذکرہ آیا ہے. ان کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ملتی کہ وہ کہاں پیدا ہوئے اور ان کی تاریخ کیا ہے. مولاناکا گمان یہ ہے کہ ’’ذوالکفل‘‘ دراصل کپل وسطو کا شہزادہ ہے. یہ ریاست نیپال کے علاقہ میں تھی اور ذوالکفل وہاں کے شہزادے تھے. اگر ایسا ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ یقینا حضرت ابراہیم ؑ کی نسل میں سے ہیں. اس لیے کہ قرآن مجید کی نص قطعی کی رو سے حضرت ابراہیم ؑ کے بعد نبوت اور کتاب حضرت ابراہیم ؑ کی ذریت سے باہر ممکن نہیں. آیت زیر مطالعہ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ کو سامنے رکھیں گے تو تحقیق کے بہت سے دروازے کھل جائیں گے‘ بہت سے گوشے نمایاں ہوجائیں گے. ایک انسان جب آسمانی ہدایت کی روشنی اور راہنمائی میں تحقیق کا سفرطے کرتا ہے تو صحیح تر نتائج تک اس کی رسائی ممکن ہے. 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد ’’نبو ّت‘‘ اور ’’ کتاب‘‘ ذ ُرِّیت ِابراہیم ؑ کے ساتھ مخصوص ہے. اگرچہ دنیا میں اور علاقے بھی ہیں لیکن تاریخ یہودیت اور تاریخ عیسائیت کے حوالے سے ہمارے پاس ثبوت اسی علاقے کا ہے جسے ہم مشرقِ وسطیٰ 
(Middle East) کہتے ہیں. درحقیقت اسلام اور ان دونوں مذاہب (یہودیت اور عیسائیت) کا تعلق اسی علاقے سے ہے. قرآن مجید نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قبل کے جن رسولوں کا تذکرہ کیا ہے وہ بھی اسی علاقے سے متعلق تھے ‘ یعنی حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام. اس کے علاوہ پوری دنیا میں دوسرے علاقوں سے‘ خاص طو رپر ہندوستان اور چین‘ جوتہذیب و تمدن کے بہت قدیم مراکز ہیں‘ قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ بحث نہیں کی ہے. اور یہ بات بالکل واضح اور منطقی ہے‘ اس لیے کہ قرآن کریم کے اوّلین مخاطب یعنی اہل عرب کے پاس ان کے بارے میں واقفیت نہیں تھی .لہذا خواہ مخواہ ان کا تذکرہ کرنا ان کے لیے گویا ایک لایعنی سی بات ہوتی‘کیونکہ اس کے لیے انہیں پہلے تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم دی جاتی‘ پھر اُن تمام علاقوں میں بھیجے گئے انبیاء و رُسل کا تذکرہ کیا جاتا‘ جبکہ اس کی قطعاً کوئی حاجت نہیں تھی. البتہ اس سے جو اشکال سامنے آ رہا ہے‘ جسے ہم نے حل کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ایک طرف تو قرآن کہتا ہے : وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ﴿۲۴﴾ ’’اور ہر بستی میں ایک خبردار کرنے والا (نبی یا رسول) گزرا ہے‘‘ اور: وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ ٪﴿۷﴾ ’’اور ہر قوم کے لیے ایک راہنما (گزرا) ہے‘‘.جبکہ دوسری طرف یہ حقیقت سامنے آ رہی ہے کہ کم ازکم گزشتہ ساڑھے چار ہزار برس کے دوران تو صرف ذ ُریت ِابراہیمی ؑ ہی میں کتاب اور نبوت رہی. 

ان دونوں الفاظ ’’ہادی اور نذیر‘‘ پر غور کرتے ہوئے یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ ہر لفظ کے کچھ مضمرات ہوتے ہیں‘ اس کی اپنی ایک 
connotation ہوتی ہے. لفظ ’’ھادٍ‘‘ یا ’’ھادی‘‘ (ہدایت دینے والا) ایک عام لفظ ہے. اسی طریقے سے ’’نذیر‘‘ (خبردار کرنے والا) بھی ایک عام لفظ ہے. یہ دونوں لفظ ایسے شخص کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں جو حقائق سے آشنا ہو جائے‘ چاہے وہ از خود ہی آشنا ہوا ہو.قرآن مجید میں اس کی ایک بڑی اہم مثال موجود ہے . اور وہ اس اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اگر اس کا تذکرہ اتنی وضاحت و صراحت کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ اہم مضمون ہم پر منکشف ہی نہ ہوپاتا. اور وہ مثال ہے حضرت لقمان کی.آپ نہ نبی تھے‘ نہ رسول تھے اور نہ ہی ان کے بارے میں کسی نبی یا رسول کے اُمتی ہونے کا کوئی ثبوت ہے. وہ بس ایک سلیم الفطرت‘ سلیم العقل انسان تھے. اس سلیم الفطرت انسان نے اپنی عقل سلیم کی راہنمائی میں غور و فکر اور سوچ بچار کے ذریعے ان تعلیمات تک رسائی حاصل کر لی جو قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات ہیں‘یعنی توحید اور معاد . اب تیسری چیز جو رہ جاتی ہے وہ نیکی اور بدی کا امتیاز ہے. اس کی تمیز اور اس کا شعور بھی اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں ودیعت کر دیا ہے. نبوت اور کتاب درحقیقت ہدایت ِخداوندی کی معین شکلیں ہیں‘ لیکن ہدایت خداوندی اور انذار صرف نبوت اور کتاب کے ساتھ وابستہ نہیں ہے‘ بلکہ ایک حکیم اور دانا انسان بھی ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے غور و فکر کے نتیجے میں ان حقائق تک پہنچا ہو اور اپنے ان حقائق اور اپنی علمی اور عقلی یافت کے حوالے سے لوگوں کو خبردار کر رہا ہو‘ انہیں نیکی کی تلقین کر رہا ہو. جیسے سورۃ لقمان میں حضرت لقمان کا قول نقل ہوا ہے : یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ (آیت ۱۷’’اے میرے بیٹے! نماز قائم کر‘ نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر ‘اور تجھ پر جو بھی مصیبت پڑے اس پر صبر کر‘‘.تو یہاں انذارِآخرت بھی ہے ‘ توحید کی تلقین بھی ہے اور شرک کی مذمت بھی . اس سورۂ مبارکہ میں شرک کی مذمت میں حضرت لقمان کا قول ہے :
یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾ 

’’اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا! یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے.‘‘ چنانچہ یہ تمام بنیادی حقائق نبوت اور کتاب کے بغیر بھی نوعِ انسانی کی رسائی میں ہیں‘ بشرطیکہ اس حوالے سے صحیح فکر کے نتیجے میں مختلف حکماء کی توحید تک رسائی ہو جائے‘ وہ پہچان لیں کہ بس حیاتِ دُنیوی سے پوری تسکین نہیں ہو رہی‘ ذہن مطمئن نہیں ہو رہا‘ بلکہ کوئی اور زندگی ہونی چاہیے اور یہ ہو کر رہے گی. اور پھر اس حوالے سے انہوں نے انذارِ آخرت بھی کیا ہو. تو یہ ’’انذار‘‘ اور ’’ہدایت‘‘ عام الفاظ ہیں. پوری دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے ہادی اور منذر اٹھائے ہیں. ضروری نہیں کہ وہ نبی ہوں‘ لیکن کتاب درحقیقت شریعت سے عبارت ہے‘ یعنی ایک واضح ہدایت کہ یہ کرو‘ یہ نہ کرو‘ یہ حرام ہے اور یہ تمہارے لیے واجب اور فرض ہے. یہ چیز درحقیقت ذ ُریت ِابراہیم ؑ پراللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم ہے‘ جس کے لیے قرآن مجید میں ایک آیت بھی موجودہے کہ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ (البقرۃ:۱۲۴’’یقینا میں آپ کو لوگوں کے لیے امام بنانے‘لگاہوں.‘‘

امامت کا مقام جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عطا ہوا ہے ‘درحقیقت اسی کا یہ ایک مظہر ہے کہ ’’نبوت ‘‘ اور ’’ کتاب‘‘ جو ہدایت خداوندی کی ایک معین شکل ہے ‘ نسل ابراہیمی ؑ کے لیے مخصوص کر دی گئی ہے. نسل ابراہیمی کی ایک شاخ وہ ہے جو حضراتِ اسحق اور یعقوب علیہما السلام سے چلی اور زیادہ تفاصیل ہمیں انہی کی معلوم ہیں. دوسری شاخ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے چلی اور ان میں نبی اکرم کی بعثت ہوئی. تیسری شاخ حضرت قتورہ سے چلی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تیسری بیوی ہیں. ان کے کئی بیٹے تھے. ہم ان میں سے صرف ایک سے واقف ہیں جن کی نسل قومِ مدین یا مدیان کہلاتی ہے‘ جن میں حضرت شعیب علیہ السلام بھیجے گئے. لیکن ان کی اولاد کہاں کہاں پھیلی ہے‘ اس کا ہمیں کوئی پختہ علم نہیں. جیسے میں عرض کر چکا ہوں کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت عیس یا عیسوکے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں گئے. نسل تو وہ بھی ابراہیم ؑہی کی ہے . اس نسل میں بھی کوئی نبی آئے ہوں گے. ہو سکتا ہے وہ دور دراز کے علاقوں میں جا کر آباد ہو گئے ہوں. لیکن بہرحال نبوت اور کتاب کی شکل اگر ہے تو وہ صرف ذریتِ 
ابراہیمی ؑ میں ہے. باقی عام اخلاقی ہدایات‘ عام اخلاقی تعلیمات‘ کم سے کم توحید کی تلقین اور شرکت کی مذمت‘ یہ وہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے چونکہ عقل سلیم اور فطرتِ سلیمہ میں ودیعت کر دی ہیں لہذا اس حوالے سے ہر قوم کے اندر کسی نبی‘ یا کسی ہادی یا کسی نذیر کا آنا بالکل قرین قیاس ہے اور ان دونوں چیزوں میں کوئی تضاد نہیں. 

یہ آیت مبارکہ ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے : 
فَمِنۡہُمۡ مُّہۡتَدٍ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۶﴾ ’’پس ان میں ہدایت یافتہ بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت فاسقوں پر مشتمل ہے‘‘. اس سے پہلے فرمایا گیا تھا: وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ ’’اورہم نے ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی‘‘.جب تک حضرت ابراہیم علیہ السلام نہیں آئے حضرت نوح علیہ السلام کی نسل میں نبوت و کتاب رہی. بعد ازاں حضرت ابراہیم ؑ کے بعد اُن کی نسل میں نبوت و کتاب کو مخصوص کر دیا گیا. لیکن چاہے وہ ذ ُریت ِنوحؑ ہو یا ذ ُریت ِابراہیم ؑ ‘یہ سب کے سب نیک لوگ نہیں تھے.ان میں سے کچھ وہ بھی ہوئے جنہوں نے ہدایت اختیار کی‘ ہدایت یافتہ ہوئے‘جبکہ ان میں سے بہت سے وہ ہیں کہ جنہوں نے اس راستے کو چھوڑا‘ اس سے اعراض وانحراف کیا‘ بدعات اور طرح طرح کی گمراہیوں میں مبتلا ہوئے اور مشرکانہ اوہام میں مبتلا ہوگئے. بہرحال ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جوہدایت پر تھے‘ لیکن ان میں سے بہت سے فاسق اور نافرمان ہیں‘ وہ اللہ کی ہدایت سے مُنہ موڑ کر فسق و فجور میں مبتلا ہو گئے.