آگے فرمایا: وَ قَفَّیۡنَا بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ ۬ۙ ’’اور پھر ہم نے ان کے پیچھے اُٹھایا مریم کے بیٹے عیسٰی ؑ کواور اسے ہم نے عطا کی انجیل‘‘. نبوت کے ساتھ کتاب کا ایک خاص ربط ہے .حضرت موسٰی علیہ السلام کو تورات عطا کی گئی‘ اور اُن کے بعد جو بہت سے انبیاءِ بنی اسرائیل ہیں ان کو بہت سے صحیفے دیے گئے. خاص طور پر ایک صحیفہ ’’ زبور‘‘ کے نام سے مشہور ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام کو دیا گیا. پھر حضرت عیسٰی علیہ السلام کو انجیل کے ساتھ مبعوث کیا گیا. آگے فرمایا: وَ جَعَلۡنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ ’’اور جن لوگوں نے اس کی پیروی کی (یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی) ان کے دلوں میں ہم نے رأفت اور رحمت پیدا کر دی‘‘. ’’رأفت‘‘ اور’’رحمت‘‘ تقریباً مترادف الفاظ ہیں. بہت سے الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ جو مترادفات کے طور پر مستعمل ہوتے ہیں‘ لیکن ظاہر بات ہے کہ دو الگ الگ الفاظ کے دو مفہوم یقینا ہوتے ہیں اور جب وہ بیک وقت سامنے آتے ہیں تو پھر غور کرنا پڑتا ہے کہ ان کے مابین فرق کیا ہے‘ ورنہ وہ ایک دوسر ے کی جگہ بھی استعمال ہو جاتے ہیں. جیسا کہ ’’ایمان‘‘ اور ’’اسلام‘‘ مترادف بھی ہیں (ہمارے منتخب نصاب میں یہ الفاظ بار بار استعمال ہوئے ہیں) لیکن ان کا اپنا علیحدہ مفہوم بھی ہے. اسی طرح جہاد و قتال‘ نبوت و رسالت اور نبی و رسول تقریباً مترادف بھی ہیں لیکن ان کا علیحدہ علیحدہ مفہوم اور مضمون بھی ہے . اس کے بارے میں اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ : ’’اِذَا تَفَرَّقَا اجْتَمَعَا وَاِذَا اجْتَمَعَا تَفَرَّقَا‘‘ کہ جب یہ جوڑوں کے الفاظ علیحدہ علیحدہ آتے ہیں تو مفہوم تقریباً ایک ہی ہوتا ہے‘ لیکن جہاں دونوں ایک ساتھ آ جائیں گے تو وہاں یقینا کوئی نہ کوئی فرق ہو گا جس کو ظاہر کرنا مقصود ہے. یہاں پر بھی رأفت اور رحمت جوڑ ابن کر آئے ہیں .ان دونوں میں نسبت یہ ہے کہ رأفت اس کیفیت کا نام ہے جس کے تحت کسی کے دکھ اور درد کو انسان اپنے دل میں محسوس کر تا ہے. اس کے لیے فارسی کالفظ ’’ہمدردی‘‘ مستعمل ہے جو اِس مفہوم کو بہت خوبصورتی سے ادا کرتا ہے. جیسے ایک جماعت کے لوگ ہم جماعت اور ایک زمانے کے لوگ ہم عصر کہلاتے ہیں اسی طرح ہمدرد کا مطلب ہے جن کا درد باہم مشترک ہے‘ یعنی ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرنے والے لوگ ہمدرد ہیں. جیسے کسی شاعر نے کہا : ؎

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے! 

اس ہمدردی کے مادے کو ایک حدیث میں رِفق سے تعبیر کیا گیا ہے. ارشادِ نبویؐ ہے: مَنْ یُحْرَمِ الرِّفْقَ یُحْرَمُ الْخَیْرَ کُلَّــــہٗ (رواہ مسلم و ابوداوٗد) ’’جو شخص دل کی نرمی سے محروم کر دیا گیا وہ کل کے کل خیر سے محروم ہو گیا‘‘.یعنی کٹھور دل ‘ سخت دل انسان خیر سے بالکل محروم ہوجاتا ہے .اسی طرح رقیق القلب اور شفیق کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں.آپ کا مشفق وہ ہے جسے آپ کے بارے میں اندیشے رہیں کہ آپ کو کہیں کوئی گزند ‘کوئی تکلیف اورکوئی نقصان نہ پہنچ جائے. یہ شفقت ہے. والدین کی شفقت یہی ہے کہ انہیں ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اولاد کو کہیں کوئی نقصان نہ ہو‘ کوئی گزند نہ پہنچے. ان تمام کیفیات کے لیے ’’رأفت‘‘ درحقیقت ایک جامع عنوان ہے . یہ دل کی وہ کیفیت ہے کہ جس میں کسی کے دکھ درد کو انسان خود اپنے باطن میں محسوس کرسکے. اس کا نتیجہ نکلتا ہے ’’رحمت‘‘ کی صورت میں. رحمت یہ ہے کہ اب آپ اس کے درد کو بانٹنے کی کوشش کریں ‘اس کے ازالے کی کوشش کریں‘ اس کی تکلیف کو رفع کرنے کی کوشش کریں .تو رحمت گویا اس کا نتیجہ ہے . رأفت اور رحمت اب جوڑے کی شکل میں آئے ہیں اور بیک وقت دونوں الفاظ آئے ہیں تو ان میں یہ نسبت ہے. یہ الفاظ یا تو اللہ کے لیے آتے ہیں ‘جیسے رؤف اور رحیم ‘یعنی نہایت شفیق‘ نہایت مہربان اور نہایت رحم فرمانے والا. یا پھر یہ حضور  کے لیے سورۃ التوبۃ کی آخری سے پہلی آیت میں آئے ہیں: بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾ ’’(آپ ) مؤمنوں کے حق میں نہایت شفیق اور نہایت رحیم ہیں‘‘.حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروکاروں کے لیے بھی یہ الفاظ آئے ہیں .اس لیے کہ اُن کے دلوں میں ایک خاص رقت ِقلبی تھی. اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضور اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مابین یہ وصف بہت ہی مشترک تھا. اس اعتبار سے حضرت ابوبکرؓ ‘حضور کی شخصیت کا ایک کامل پرتو تھے. یہ ہے رأفت اور رحمت.