اس کے بعد فرمایا: وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ ’’اور رہبانیت کی بدعت خود انہوں نے ایجاد کی تھی‘ ہم نے اسے ان پر لازم نہیں کیا تھا‘‘.اس رأفت اور رحمت کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ جب یہ چیز حداعتدال سے تجاوز کر گئی تو اس نے رہبانیت کی شکل اختیار کر لی.

آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ لفظ ’’ رَہبانیت‘‘ اصل میں کیا ہے. عام طور پر ہم رُہبانیت کا لفظ استعمال کرتے ہیں. لفظ دونوں درست ہیں‘ لیکن یہاں رَہبانیت 
ہے‘ رُہبانیت نہیں ہے. رَہب کہتے ہیں خوف کو. چنانچہ قرآن مجید میں ہے : وَ اِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ ﴿۴۰﴾ (البقرۃ) ’’پس مجھ ہی سے ڈرو‘‘.اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے : وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمۡ (الانفال:۶۰’’(مسلمانو!)اپنے دشمنوں کے لیے اپنے پاس حتی الامکان طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے (یعنی وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید ترین اسلحہ تیار رکھو) تاکہ تم ڈراؤ (خوف زدہ کرو) اپنے دشمنوں کو بھی اور اللہ کے دشمنوں کو بھی‘‘. تو ’’ رَہب‘‘ کا مطلب ہے خوف. رَہب سے ’’ر‘‘ کے زبر کے ساتھ رَہبان بنتا ہے. جیسے رَحم سے رَحمان. یہ فَعلان کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے کہ جب کوئی وصف بہت ہی ہیجانی کیفیت میں ہو‘ طوفانی انداز کا ہو‘ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ہو. اسی طرح کی رحمت ’’رحمان‘‘ کے لفظ میں ظاہر ہوتی ہیں .تو رَھبان سے مراد وہ شخص ہے جس کے اندر بہت ہی زیادہ خشیت ِالٰہی ہو‘ اللہ کا خوف‘ آخرت کی باز پُرس کا خوف انتہائی شدت اختیار کر جائے. یعنی بہت زیادہ خوف زدہ‘ بہت زیادہ ڈرنے والا. اور ’’ رَہبانیت‘‘ اس کیفیت کا نام ہے. اور اس سے جو ایک نظام وجود میں آتا ہے اس کے لیے گویا یہ بطور اسم علم ہے.جبکہ رَہب سے اسم فاعل ’’راہب‘‘ ہے اور اس کی جمع ’’ر‘‘ کے پیش کے ساتھ ’’ رُہبان‘‘ ہے. اس سے رُہبانیت بنا ہے جس کا مطلب ہے راہبوں کا طریقہ‘ راہبوں کا مسلک‘ راہبوں کاانداز. تو ’’ رُہبانیت‘‘ اور ’’ رَہبانیت‘‘ کے اس فرق کو نوٹ کر لیں. فرمایا گیا: وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا’’اوررہبانیت کی بدعت انہوں نے خود اختیار کر لی.‘‘ اس سے مراد کیا ہے؟درحقیقت دنیا میں یہ ایک نظام ہے کہ انسان جہاد اور قتال کے راستے سے ہٹ کر کوئی راستہ نکالے اور شیطان انسان کی تما م تر توجہ کو صرف ذاتی اصلاح کے اوپر مرکوز کر دے‘ اور اس میں اس درجے تشدد ہو جائے کہ انسان اپنی نفس کشی پرآمادہ ہو جائے. 

دیکھئے ایک توہے ضبط ِنفس 
(self control). یہ تو مطلوب ہے‘ اس کے بغیر تو ظاہر بات ہے کہ انسان بھلائی اور نیکی کا کوئی کام کر ہی نہیں سکتا.تقویٰ نام ہی اسی کا ہے کہ پہلے انسان کو اپنے نفس کے اوپر کنٹرول حاصل ہو اور پھر وہ اسے اللہ کے سامنے جھکا دے. تو تقویٰ اور ضبط ِنفس گویا تقریباً مترادف الفاظ ہیں.لیکن ایک لفظ ہے ’’نفس کشی‘‘. نفس کشی یہ ہے کہ انسان کے اندر جب یہ جذبہ ایک حد ِاعتدال سے تجاوز کر جائے تو پھر وہ اپنے آپ کو اذیتیں پہنچاتا ہے‘ اپنے نفس کو اس کی کوئی بھی مرغوب شے فراہم نہیں کرتا‘ ہر طرح سے اس کے تقاضوں کو کچل ڈالتا ہے. انگریزی میں’’self annihilation‘‘ کا لفظ اس کی بہترین تعبیر ہے. یعنی انسان نفس کشی میں اتنا مبالغہ کرے‘ اتنا تعمق کرے کہ جس کی نفی قرآن مجید میں بھی آئی ہے. فرمایا گیا ہے: قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ (الاعراف:۳۲’’(اے نبی !) ان سے کہیے کہ کس نے حرام کی ہیں زینت کی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں‘ اور پاکیزہ چیزیں رزق میں سے؟‘‘ بلکہ صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ ان چیزوں کو جائز راستے سے حاصل کرو‘ جائز راستے سے اچھا کھاؤ‘ اچھا پہنو. اسی طرح ادائے حقوق کا معاملہ ہے. اللہ کا جو حق ہے وہ ادا کرو‘ اپنے پڑوسی کا حق ادا کرو‘ رشتہ داروں کا حق ادا کرو. اسی طرح سائلین اور محرومین کا حق ادا کرو. جیسے فرمایا گیا ہے: وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ ﴿۱۹﴾ (الذّٰریٰت) ’’اور ان کے مالوں میں سائلوں اور محروموں کا حق ہے‘‘.حقوق کے معاملے میں دین کا تصور تو یہ ہے کہ حضور نے فرمایا: وَاِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا (رواہ الترمذی و ابوداوٗد) ’’اور یقینا تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے‘‘. اس کو بھی اس کا حق پہنچاؤ. اس کی جو بھی ضروریاتِ زندگی اور تقاضے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے جسم کے اندر جو داعیات رکھ دیے ہیں ان تمام تقاضوں اور داعیات کو جائز راستے سے پورا کرو. 

دراصل جب نیکی کا جذبہ حد ِاعتدال سے تجاوز کر جاتا ہے‘ اس میں مبالغہ‘ تعمق اور گہرائی پیدا ہو جاتی ہے تو پھر یہ ایک عجیب شکل اختیار کرتا ہے. پھر انسان اپنے نفس کو اُس کے جائز حقوق بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا‘ بلکہ اُس پر قدغنیں لگاتا ہے. ہر طرح کی معاشرتی آسائشوں سے اپنے آپ کو محروم کر کے اور معاشرے سے کٹ کردُور 
جنگلوں میں‘ پہاڑوں کی غاروں میں اور چوٹیوں پر جا کر بیٹھ جاتا ہے. پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص برفانی چوٹیوں پر ننگے بدن کھڑا سردی کو جھیل رہا ہے‘ تاکہ وہ اپنے نفس کو کچلے. یہ ہے درحقیقت وہ رَہبانیت کہ جس کی طرف کچھ لوگ مائل ہو گئے. یہ لوگ اپنی نیک نیتی اور نیک دلی سے اس راستے کی طرف گئے‘لیکن شیطان نے اُن کے رخ کو موڑ دیا‘ انہیں divert کر دیا. شیطان نے انہیں غلط پٹی پڑھائی کہ بجائے اس کے کہ معاشرے میں رہ کر باطل کے ساتھ مقابلہ کرو‘ ظلم کا استیصال کرو‘ بدی کو ختم کرنے کی کوشش کرو‘ تم معاشرے سے ہی کٹ جاؤ اور جا کر کہیں جنگلوں‘ غاروں اورپہاڑوں کی چوٹیوں پر بسیرا کرو اور بس اسی نفس کشی(self annihilation) کے اندر اپنی پوری زندگی بِتا دو. یہ راستہ درحقیقت رَہبانیت ہے‘ جس کے بارے میں اسلام میں شدت سے نفی آئی ہے.