اقامت ِدین کی جدوجہد میں سیرتِ نبویؐ سے راہنمائی

میں نے بعض مواقع پر مثال دی ہے کہ جس علاقے میں بھی امید ہو کہ یہاں سے تیل نکل آئے گا تو وہاں ارب ہا ارب ڈالر ڈرلنگ پر خرچ کیے جاتے ہیں. حالانکہ یقین بھی نہیں ہے‘ بس کچھ خیال اور امید ہے کہ یہاں سے ہمیں وہ سیال سونا مل جائے گاتو اسی امید پر وہاں بہت بڑی مہم چلائی جاتی ہے. تو اگر یہ یقین ہو جائے کہ یہ ہدایت کہ دین کیسے قائم ہو گا‘ ہم اپنے اس فریضۂ اقامت دین سے کیسے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں‘ اس کی عملی شکل کیا ہو گی‘ صرف سیرتِ محمدیؐ سے ملے گی تو پھر آپ اپنی توجہ اسی پر مرکوز کریں گے‘ اس پر غور کریں گے‘ تدبر کریں گے . اقبال نے قرآن پر غور و تدبر کی دعوت دیتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں ؏ ’’ قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں!‘‘ اسی طرح سیرتِ محمدیؐ میں غوطہ زن ہوئے بغیر طریق انقلاب آپ کے سامنے واضح نہیں ہو گا. تو میرے نزدیک اس آیت ِمبارکہ کا تعلق زیر درس سورۃ کے اس عمود کے ساتھ جڑ جاتا ہے کہ : 

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿٪۲۵

’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیاں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘ اور ہم نے لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں. یہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اللہ کو معلوم ہو جائے (اور وہ لوگوں پر واضح کر دے) کہ کون اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے غیب میں رہتے ہوئے. یقینا اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے.‘‘

اب اس کا عملی طریق کار تمہیں کہاں ملے گا؟ فرمایا: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اٰمِنُوۡا بِرَسُوۡلِہٖ ’’اے (تمام) اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کے رسولوں پر ایمان پختہ رکھو!‘‘ سارا زور اطاعت و اتباعِ رسولؐ کے اوپر ہے. جیسے کہ آیۂ استخلاف (النور:۵۵) سے ماقبل آیت (نمبر ۵۴) میں بھی اطاعت رسول پر زور ہے.فرمایا: 

قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیۡکُمۡ مَّا حُمِّلۡتُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا ؕ وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۵۴﴾ 

’’کہہ دیجیے (اے محمد ) کہ اللہ کے مطیع بنو اور رسولؐ کے تابع فرمان بن کر رہو. لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ رسول پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اس کا ذمہ دار وہ ہے اورتم پر جس فرض کا بار ڈالا گیا ہے اس کے ذمہ دار تم ہو. اُس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پاؤ گے ‘ورنہ رسولؐ کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ صاف صاف حکم پہنچا دے.‘‘

اور ما بعد آیت (نمبر ۵۶) میں بھی اطاعت ِرسولؐ پر زور ہے: 
وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۵۶﴾ ’’اوررسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘. درحقیقت اس طویل آیت آیۂ استخلاف کے اوّل و آخر سارا زور ہے اللہ کے رسول کی اطاعت پر. تو اس حوالے سے منہج انقلابِ نبویؐ کی اہمیت سامنے رہے .اور اس کے لیے بہرحال ہمارے پاس فہم و ادراک کا سرچشمہ اور ذریعہ سوائے سیرت النبی کے اور کوئی نہیں ہے. اور اس کے لیے بھی یہ بات پیش نظر رہے کہ جیسے قرآن کو سمجھنے کے لیے کوئی ایک تفسیر کفایت نہیں کرتی اسی طرح اگر کسی ایک کتابِ سیرت پر اکتفا کر کے بیٹھ رہیں گے تو سیرت کے بہت سے پہلو اوجھل رہ جائیں گے. ہر سیرت نگار کا اپنا نقطۂ نظر ہے‘ جیسے ہر مفسر کا اپنا ایک نقطہ ٔنظر ہے‘ ہر مفکر کااپنا ایک زاویۂ نگاہ (angle of view) ہے. ایک ہی شے کو اِدھر والے دیکھ رہے ہیں تو ان کے پردۂ بصارت پر اس کی تصویر کچھ اور بن رہی ہے‘جبکہ اُدھر والے دیکھ رہے ہیں تو ان کے retina پر اس کی تصویر کچھ اور بن رہی ہے. مختلف زاویۂ نگاہ سے زمین و آسمان کا فرق واقع ہو جاتا ہے. چنانچہ ایک ہی قرآن ہے‘ اس کو ایک شخص پڑھ رہا ہے‘ تدبر کر رہا ہے‘ سمجھ رہا ہے‘ اور یہ سب کچھ نیک نیتی سے کر رہا ہے ‘ لیکن اس کے سامنے کچھ اور پہلو زیادہ اجاگر ہو رہے ہیں. دوسرا شخص بھی نیک نیتی سے اپنی امکانی حد تک محنت کر رہا ہے‘ جہاد کر رہا ہے ‘ اجتہاد کر رہا ہے ‘ لیکن اس کے سامنے کچھ دوسرے پہلو نمایاں ہو رہے ہیں. تو کوئی ایک کتاب ِتفسیر بھی کبھی کفایت نہیں کرے گی اور کوئی ایک کتابِ سیرت بھی کبھی کفایت نہیں کرے گی. اس کے لیے مختلف کتابوں سے استفادہ کرنا چاہیے‘ لیکن یہ طے ہو جائے کہ ’’جا ایں جا ست‘‘ جو کچھ ملے گا یہیں سے ملے گا‘ لہذا اس کارِ عظیم کا طریق کار سیرتِ نبویؐ سے ماخوذ ہو گا‘ اور خاص طور پر طریق تنظیم. 

انقلابِ نبویؐ کے طریق کار کے مختلف مراحل تو پھر بھی قرآن مجید میں مل جاتے ہیں‘ لیکن یہ کہ اس کے لیے جمعیت کس بنیاد پر فراہم ہو گی‘ اس کے بارے میں قرآن میں سوائے اشاروں کے کچھ ہے ہی نہیں‘ جبکہ اس کا پورا نقشہ آپ کو سیرتِ نبویہؐ سے ملے گا. اسی طرح سیرت میں بیعت کا ایک مکمل نظام ہے‘ حالانکہ حضور کے لیے تو بیعت ضروری تھی ہی نہیں. آپ تو رسول تھے. جو ایمان لے آیا اسے تو ہرحال میں آپؐ کی اطاعت کرنی ہی کرنی تھی. کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی اطاعت نہ کرے .تو ایک علیحدہ سے قول و قرار اور اطاعت کا معاہدہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی‘ لیکن آپ نے درحقیقت بعد میں آنے والوں کے لیے یہ اسوہ چھوڑا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: 
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ ’’تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں ایک بہترین (اور مکمل) نمونہ ہے‘‘. اس اعتبار سے یہ بیعت کا نظام میرے ‘ آپ کے لیے اور اِس وقت کے تمام مسلمانوں کے لیے ہے‘ چاہے حضرت مسیح علیہ السلام کے متبعین میں سے کوئی ایمان لے آئے‘ چاہے یہودیوں میں سے کوئی ایمان لے آئے‘ جیسے حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ہیں‘ چاہے مشرکین عرب میں سے کوئی ایمان لائے‘ وہ انصار میں سے ہو یا مہاجرین میں سے. 

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں پر 
’’ کِفۡلَیۡنِ ‘‘ کے کیا معنی ہوں گے؟اس لیے کہ پچھلی تاویل کے اعتبار سے تو مذکورہ بالا حدیث ِنبویؐ کی رو سے ’’ کِفۡلَیۡنِ ‘‘ کے معنی معین ہو گئے کہ اہل کتاب میں سے جو محمد رسول اللہ پر ایمان لے آئیں گے انہیں دوہرا اجر ملے گا‘ اس لیے کہ وہ پہلے اپنے نبی پر بھی ایمان لائے ہوئے تھے‘ انہوں نے تعصب کی کسی پٹی کو اپنی آنکھوں پر بندھنے نہیں دیا اور حضور پر بھی ایمان لے آئے. لیکن یہ کہ متبعین محمد جو عام ہوں‘ ان کے لیے ’’ کِفۡلَیۡنِ ‘‘ کس اعتبار سے ہو گا؟ مثلاً ہم تو پیدا بھی ہوئے امت محمدؐ میں . یا کچھ لوگ وہ تھے جو پہلے کسی بھی نبی کے ماننے والے نہیں تھے ‘وہ حضور پر ایمان لے آئے اور حضور کا اتباع کرتے ہیں‘ آپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں تو اُن کے لیے ’’ کِفۡلَیۡنِ ‘‘ کس اعتبار سے ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے سورۂ سبا کی آیت ۳۷ کا مطالعہ کیجیے جو دیگر تمام مسلمانوں کے لیے بھی کِفۡلَیۡنِ کا مفہوم دے رہی ہے. فرمایا : وَ مَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ بِالَّتِیۡ تُقَرِّبُکُمۡ عِنۡدَنَا زُلۡفٰۤی اِلَّا مَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ۫ ’’(دیکھو مسلمانو!)وہ چیزیں جن کے ذریعے سے تم ہمارا تقرب حاصل کر سکتے ہو وہ تمہارے اموال اور اولاد نہیں ہیں‘سوائے اُس کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کرے‘‘. ایمان اور عمل صالح کے بعد تو مال بھی تقرب الی اللہ کا ذریعہ بن جائے گا ‘ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے‘ اولاد بھی ذریعۂ تقرب بن جائے گی ‘اسے اللہ کے دین کے لیے تیار کیا جائے‘ اس کے اندر وہی جذبہ پیدا کیا جائے اور ان کی تربیت کی جائے. لیکن ایمان اور عمل صالح کے بغیر اولاد سے اور مجرد مال سے تقرب حاصل نہیں ہوتا . آگے فرمایا: فَاُولٰٓئِکَ لَہُمۡ جَزَآءُ الضِّعۡفِ بِمَا عَمِلُوۡا ’’توایسے لوگوں کے لیے ان کے اعمال کا دوہرا اجر ہو گا.‘‘ 

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ دوہرا اجر کیوں ہو گا؟ یہ دوہرا اجر اس اعتبار سے ہے کہ ہر مسلمان جب دین پر عمل کرتا ہے تو وہ اپنے عمل کے ذریعے سے اپنے پیچھے والوں کے لیے بھی ایک اُسوہ چھوڑ رہا ہوتا ہے. فرض کیجیے کوئی شخص رشوت لیتا تھا‘ اس کی زندگی میں اللے تللے تھے‘ عیش ہو رہی تھی. اب اس نے سمجھا کہ یہ حرام ہے اور اسے چھوڑ دیا تو اب یہ چیز کسی اور کے لیے بھی مثال بن جائے گی کہ اگر اُس کا بغیر رشوت کے گزارا ہو رہا ہے تو ہمیں بھی موت نہیں آجائے گی‘ فاقہ نہیں آجائے گا اگر میں اِس حرام سے رُک جاؤں. یا فرض کیجیے کوئی شخص کسی بینک کے اندر ملازم تھا ‘ پچاس ساٹھ ہزار روپے تنخواہ لے رہا تھا‘ لیکن اب اس نے وہاں سے ملازمت چھوڑ دی ہے اور کہیں دوسری جگہ پندرہ یا بیس ہزار کی تنخواہ پر گزارا کر رہا ہے تو اُس کے اس عمل سے کسی اور شخص کے اندر بھی عزیمت پیدا ہو سکتی ہے کہ اگر وہ ہمت کر سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے بھی ہمت دے سکتا ہے. 
تو یہ صاحب عزیمت انسان بعد والوں کے لیے یا خود اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے چونکہ نمونہ بن جاتا ہے‘ ان کی ہمت افزائی اور حوصلہ افزائی کا ذریعہ بن جاتا ہے ‘لہذا ایسے لوگوں کے لیے اجر دوہرا ہے. قرآن مجید میں اس کی دوسری مثال سورۃ الاحزاب میں حضرت محمد کی ازواج ِ مطہرات رضی اللہ عنھن کے ضمن میں آئی ہے . ان سے فرمایاگیا کہ اگر تم نیک کام کرو گی تو تمہیں اجر بھی دوہرا ملے گااور اگر کوئی غلط حرکت کرو گی تو سزا بھی دوہری ملے گی. اس لیے کہ تمہاری ایک خصوصی حیثیت ہے کہ تمہیں تمام اُمت مسلمہ کی خواتین کے لیے اُسوہ بننا ہے .عورتوں کی زندگیوں کا جو خالص نسوانی اور صنفی پہلو ہے اس اعتبار سے ظاہر بات ہے کہ حضور تو ان کے لیے مکمل نمونہ نہیں ہو سکتے. اس لیے کہ آپؐ بہرحال مرد ہیں. تو وہ اُسوہ اللہ نے ازواج ِ مطہرات کے ذریعے سے فراہم کیاہے. اس حوالے سے فرمایا کہ اگر تم نے کوئی غلط حرکت کی تو سزا دوہری ہو گی اور اگرنیکی پر چلو گی تو تمہارا اجر بھی دوہرا ہے. اس معنی میں ’’کِفۡلَیۡنِ‘‘ کا مفہوم بھی معین ہو گیا. 

اس تاویل سے آیت کا اگلا ٹکڑا بہت زیادہ نکھر رہا ہے کہ: 
وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ ’’اور وہ تمہیں نور دے گا جس کو لے کر تم چل سکو گے‘‘. ’’تَمۡشُوۡنَ بِہٖ ‘‘ کا ایک پہلو تو سورۃ الحدید کی آیت ۱۲ کے حوالے سے سمجھ لیجیے کہ قیامت کے دن میدانِ حشر میں جب اہل ایمان اور منافقوں کو علیحدہ کرنے کے لیے چھلنی لگے گی تو اہل ایمان کو نور عطا ہو گا. وہ نور ان کے سامنے بھی ہو گا اور داہنے ہاتھ کی طرف بھی ہو گا . اس سے مراد ایک تو یہ نورِ ایمان ہے‘ اور خاص طور پر اللہ کے نبی پر ایمان کا نور جس کو لے کر اہل ایمان چل سکیں گے. لیکن میرے نزدیک اس امکان کے باوجود یہ تاویل زیر درس آیت کے ساتھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتی. اب آپ اس کی اصل مناسبت سمجھ لیجیے! آپ دین کی انقلابی جدوجہد میں مصروف ہیں‘ اس راہ میں جدوجہدکر رہے ہیں. آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی پگڈنڈی اِدھر مڑ رہی ہے‘ کوئی اُدھر مڑ رہی ہے .اب قدم قدم پر سوال آئے گا کہ کہاں جاؤں؟اب اگر رسول اللہ پر گہرا ایمان ہے ‘ اور یقین ہے کہ ’’جا ایں جا است‘‘ کہ یہیں سے ملے گا جو کچھ ملے گا توپھر یہ نور تمہارے ساتھ ہو گا‘ یہ قدم قدم پر تمہاری راہنمائی کرے گااور کسی غلط موڑ پر مڑنے سے بچا لے گا. وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ سے مراد دراصل یہ ہے . لہذا اِس وقت اُسوۂ رسول کو سامنے رکھو!ذاتی زندگی کے معاملات ہوں یا تحریکی معاملات ہوں‘ اجتماعی اور انقلابی جدوجہد ہو‘ ہر جگہ اسوۂ رسولؐ سامنے رہنا چاہیے! البتہ جہاں کہیں معین طو رپر بالکل نئی صورتِ حال ہو‘ وہ حالات نہ ہوں جو حضور کے زمانے میں تھے تو نئے تبدیل شدہ حالات کے اندر پھر اجتہاد کیا جائے گا. اور اجتہاد بھی کتاب و سنت کی بنیادپر ہوتا ہے. وہیں سے استنباط کرنا ہوتا ہے. جیسے آپ کو راجباہ سے پانی لے کر آنا ہے تو وہاں سے نالی کھینچنا ہو گی‘ ورنہ اگر نالی کا تعلق راجباہ کے ساتھ ہی نہیں ہے تو پانی کہاں سے آ جائے گا؟ تو اصل راہنمائی تو قرآن و سنت ہی سے ملے گی‘ وہیں سے اجتہاد کر کے راہنمائی حاصل کرنی ہے .اور یہ اجتہاد بھی صرف اُ سی جگہ ہو گا جہاں پر قطعیت کے ساتھ ثابت ہو جائے کہ یہ بالکل نئی صورتِ حال ہے جو اُس وقت کے حالات سے بالکل مختلف ہو چکی ہے‘ اور پھر اس کا تعین بھی کرنا ہو گاکہ جتنی جگہ پر اجتہاد کی ضرورت ہے اس سے آگے تجاوز نہ ہو ‘ایسا نہ ہو کہ اس کو عام (generalize) کر کے پورے کے پورے منہج انقلابِ نبویؐکی بساط لپیٹ دی جائے‘ بلکہ صرف اُس مخصوص معاملے (particular issue) کی حد تک اجتہاد کیا جائے.بہرحال میرے نزدیک یہ مفہوم ہے اس آیۂ مبارکہ کا!

اس سورۂ مبارکہ کا عمود اس کی آیت ۲۵ ہے. اس کا مفہوم ذہن میں رکھتے ہوئے براہ راست اس آیت پر آ جایئے: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ ’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘‘.تمہارے اندر قوت و صلاحیت اور ایثار و قربانی کا مادہ تو اللہ کے تقویٰ سے پیدا ہو گا ‘ یعنی اللہ کا خوف اور اس کی محبت . تقویٰ کے اندر ایک پہلومحبت کا بھی تو ہے! یعنی کسی محبوب ہستی کے کسی حکم سے بھی سرتابی نہ کرنا کہ مبادا وہ ناراض ہو جائے ‘ اس طرزِ عمل کی اصل بنیاد محبت ہے. یہی تمہارا توانائی کا سرچشمہ (source of energy) ہے.تمہاری جدوجہد اور صلاحیتوں کے لیے ایک رخ متعین کرنے والی شے تو اللہ کا تقویٰ ہے‘ لیکن یہ نیت‘ جذبہ‘ جوش و خروش‘جدوجہد‘جہاد و قتال عملا ً کس راستے پر direct ہوں؟ فرمایا: وَ اٰمِنُوۡا بِرَسُوۡلِہٖ ’’اور ایمان لاؤ اُس کے رسولؐ پر‘‘. اب اس کے لیے طریق کار اور منہج محمد رسول اللہ کا اُسوۂ کاملہ اور آپؐ کی سیرتِ مطہرہ میں ہے .اگر یہ کرو گے تو اللہ کا وعدہ ہے کہ یُؤۡتِکُمۡ کِفۡلَیۡنِ مِنۡ رَّحۡمَتِہٖ ’’وہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ عطا فرمائے گا‘‘.اس لیے کہ تم خود بھی دوسروں کے لیے اسوہ بن جاؤ گے‘ اُسوۂ محمدی کوآگے منتقل (transmit)کرنے کا ذریعہ بن جاؤ گے. تم بھی گویا ایک کڑی (link) بن جاؤ گے اس اُسوۂ محمدیؐ ‘ کو دوسرے لوگوں یا اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے. وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ ’’اور وہ تمہیں نور عطا کرے گا جس میں تم چل سکو گے‘‘. تمہاری اجتماعی جدوجہد کو قدم قدم پر راہنمائی فراہم کرنے کے لیے وہ نورِ سیرتِ محمدیؐ ہر وقت تمہاری دستگیری کے لیے موجود ہو گا. وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿ۚۙ۲۸’’اور( اگر کوئی خطا ہو ہی گئی تو )اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے گا. اور اللہ غفور ہے ‘ رحیم ہے.‘‘