کیونکہ نامور سائنسدان کی سوانحیات میں اُن کی غلطیاں موجود نہیں ہوتیں، اس لیے ہم خطرے کا تعین کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ اور کیونکہ کچھ بھی جو کسی نامور سائنسدان نے کیا وہ اب عموممی حکمت بن چکا ہوتا ہے، اس تک آنے کے لیے انہوں نے جو خطرہ مول لیے ہوتے ہیں وہ بھی لوگوں کو نظر نہیں آتے۔

نیوٹن کی سوانحیات، مثلاََ طبیعیات نہ کے کیمیا یا نظریہ پر توجہ رکھتی ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ اُس کے بلکل درست فیصلے اور سوچ نے اُس کے سامنے حقائق کو اشکار کر دیا ہے جو کسی اور نے پہلے نہ ڈھونڈا تھا۔ وہ وقت جو اُس نے نظریہ یا کیمیا میں گزارا اُس کی صفائی کیسے پیش کی جائے گی؟ خیر، ہوشیار لوگ اکثر پاگل جیسی سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔

لیکن شاید اس سے آسان صفائی ہے۔ شاید ہوشیار پن اور پاگل پن ہماری سوچ کے مطابق دو نہیں ایک ہیں۔ طبیعیات  ہم سوچتے ہے اس پر کام کرنا کارآمد ہے، جبکہ نظریہ اور کیمیا پر کام کرنا وقت کا ضائع۔ اس لیے ہم نے دیکھا چیزیں آخر میں کس ڈگر پر بیٹھیں۔ نیوٹن کے دور میں ان تینوں چیزوں پر کام کرنا کارآمد تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ طبیعیات پر کام کرنا کتنا کارآمد ہو گا؛ جسے ہم اب طبیعیات سے جانتے ہیں؛ اگر اس میں مزید لوگ کام کرتے۔ جبکہ کیمیا اور نظریہ مارک انڈریسن کے مطابق اُس وقت اُس زمرے میں آتے تھے جس کی تعریف "بڑے، اگر درست"۔

نیوٹن نے تین چیزوں پر بازی کھیلی۔ ایک کامیاب ہو گئی۔ لیکن وہ تینوں میں پرخطر تھیں۔