نوعِ انسانی کے لیے ایمان کی دعوت

اس تمہید کے بعد اب آیئے کہ پہلے اس کی ابتدائی چار آیات‘ جن کے بارے میں عرض کیا جا چکا ہے کہ وہ دعوتِ ایمان پر مشتمل ہیں‘ پرغور کریں. فرمایا:

اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم . بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ؕ وَ اِنۡ یَّسۡلُبۡہُمُ الذُّبَابُ شَیۡئًا لَّا یَسۡتَنۡقِذُوۡہُ مِنۡہُ ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ ﴿۷۳
مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۷۴﴾اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ ﴿ۚ۷۵﴾یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ ﴿۷۶﴾ 
(الحج) 

’’اے لوگو‘ ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے توجہ سے سنو! یقینا وہ ہستیاں کہ جنہیں تم پکارتے ہو اللہ کے سوا اس پر قادر نہیں ہیں کہ کسی مکھی تک کو تخلیق کر سکیں‘ خواہ وہ اس کے لیے مل جل کر کوشش کریں. اور اگر کوئی مکھی ان سے کچھ چھین لے جائے تو وہ اس سے اس کو واپس لینے پر بھی قادر نہیں. کتنا ضعیف ولاچار ہے وہ جو طالب ہے‘ اور کتنا کمزور اور بے بس ہے وہ جو مطلوب ہے. انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسے کہ اس کی قدر کا حق تھا. یقینا اللہ قوی ہے‘ زبردست ہے. اللہ چن لیتا ہے فرشتوں میں سے بھی اپنے پیغامبر اور انسانوں میں سے بھی. اللہ تعالیٰ سننے والا‘ دیکھنے والا ہے. جانتا ہے جو کچھ کہ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ کہ ان کے پیچھے ہے‘ اور اللہ ہی کی طرف تمام معاملات لوٹا دیے جائیں گے.‘‘

یہ ہیں وہ چار آیات جن میں سے پہلی دو آیات میں توحید اور اس کے مقابل کی گمراہی یعنی شرک کا بیان ہے. احقاقِ توحید اور ابطالِ شرک کے بعد ایک آیت میں نبوت و رسالت سے متعلق ایک 
نہایت اہم بحث وارد ہوئی ہے. اور آخری آیت معاد سے متعلق ہے‘ یعنی جزا وسزائے آخرت.

اب یہاں دیکھئے کہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو بت پرست ہیں‘ اصنام پرستی ان کا دین و مذہب ہے‘ پتھر کی مورتیوں کے سامنے چڑھاوے چڑھا رہے ہیں‘ سجدے کر رہے ہیں‘ گڑگڑا گڑگڑا کر ان سے دعائیں مانگ رہے ہیں. ان کو مخاطب کر کے کہا گیا: 
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ ’’اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے‘‘. یہ وہی لفظ ہے جو ذرا سی تبدیلی کے ساتھ ہمارے ہاں ’’ضرب المثل ‘‘ کے نام سے مستعمل ہے. فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ؕ ’’تو اسے توجہ سے سنو!‘‘ ’’سَمِعَ یَسْمَعُ‘‘ کے معنی ہوتے ہیں سننا اور ’’اِسْتَمَعَ یَسْتَمِعُ‘‘ کے معنی ہوں گے توجہ سے سننا‘ کان لگا کر سننا‘ دھیان سے سننا. چنانچہ یہی لفظ آیا ہے سورۃ الاعراف کی اس آیت میں : وَ اِذَا قُرِیَٔ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا (آیت ۲۰۴یعنی جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تو پوری توجہ اور دھیان کے ساتھ اسے سنو اور خاموش رہو. تو یہاں فرمایا: ذرا توجہ سے سنوایک مثال بیان کی جاتی ہے اُس عمل کی جو تم کر رہے ہو. اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ’’بے شک یہ جنہیں تم پکار رہے ہو اللہ کو چھوڑ کر‘‘. جن سے دعائیں کر رہے ہو‘ جن کے سامنے نذریں پیش کر رہے ہو‘ جن کے لیے چڑھاوے چڑھا رہے ہو. لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ’’یہ اس پر بھی قادر نہیں ہیں کہ ایک مکھی تک کی تخلیق کر سکیں‘ اگرچہ یہ سب جمع ہو جائیں‘‘. وَ اِنۡ یَّسۡلُبۡہُمُ الذُّبَابُ شَیۡئًا لَّا یَسۡتَنۡقِذُوۡہُ مِنۡہُ ؕ ’’اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو یہ وہ چیز اُس سے چھڑا نہیں سکتے‘‘. یعنی تخلیق تو کیا کریں گے‘ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو یہ تو اس سے چھڑانے پر بھی قادر نہیں ہیں. ان حلووں مانڈوں پر اور ان چڑھاووں پر کہ جو تم نے ان کے سامنے رکھے ہیں‘ اگر مکھیاں بھنبھنانے لگیں تو یہ ان کو اڑانے پر بھی قادر نہیں ہیں.ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ ﴿۷۳﴾ ’’کمزور ہے چاہنے والا اور جسے چاہا جاتا ہے‘‘. یعنی کیا ہی ضعیف ولاچار اور بے بس ہے وہ جسے چاہا جا رہا ہے‘ جو مطلوب ہے. اور اسی سے اندازہ کرو کہ کتنا لاچار اور بے بس ہے وہ جو اسے چاہ رہا ہے‘ جو ایسے مطلوب کا طالب بنا ہے.