اب پہلے ذرا اس پر توجہ کیجیے کہ اس مثال سے اگرچہ بظاہر ایک خیال پیدا ہوتا ہے کہ جتنے اہتمام کے ساتھ بات شروع کی گئی تھی کوئی ویسی بڑی بات تو سامنے نہیں آئی‘ یہ تو آنکھوں کے سامنے کی بات تھی‘ وہ بھی جانتے تھے کہ یہ بت جو ہیں یہ ہاتھ نہیں ہلا سکتے‘ یہ بت مکھیوں کو اڑانے پر بھی قادر نہیں ہیں‘ پھر ادھر توجہ دلانا چہ معنی دارد؟ واقعہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اصنام پرستی یا بت پرستی کو ایک فلسفہ بنا کر پیش کیا ہے‘ ان کے نظریات کا معاملہ کچھ اور ہے‘ لیکن عوام الناس میں جو بات ذہن میں بیٹھ جاتی ہے وہ یہی ہے کہ یہی ہیں ہمارے معبود‘ یہی ہیں ہماری دعائوں کے سننے والے اور یہی ہیں ہماری مشکل کشائی اور حاجت روائی پر قادر. یہ مثال عوام کے اس خیال کو توڑنے کے لیے دی گئی ہے. اسی غرض کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک عملی تدبیر اختیار کی تھی کہ بت کدے میں گھس کر تمام بتوں کو توڑ پھوڑ ڈالا اور ایک بڑے بت کے کاندھے پر وہ تیشہ لٹکا دیا کہ جس سے ان تمام چھوٹے بتوں کو توڑا تھا. جب لوگوں کو خبر ہوئی تو ایک زلزلہ آ گیا‘ ایک طوفان برپا ہو گیا کہ کس نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ معاملہ کیا؟ اور جب یہ کہا گیا کہ ہاں‘ ایک سرپھرا نوجوان ہے‘ ابراہیم‘ وہ ان کی توہین کیا کرتا ہے‘ ان کے بارے میں کچھ ایسی ویسی باتیں کرتا رہتا ہے تو انہیں پکڑ کر لایا گیا. جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ تم نے کیا ہے؟

تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ اس سے پوچھو جس کے کاندھے پر تیشہ موجود ہے‘ اس نے کیا ہو گا. واقعاتی شہادت(circumstantial evidence) تو اسی کے خلاف جاتی تھی.جب انہوں نے کہا کہ تم جانتے ہو وہ نہ بول سکتے ہیں‘ نہ حرکت کر سکتے ہیں‘ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وہ چوٹ لگائی: اُفٍّ لَّکُمۡ وَ لِمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ (الانبیاء:۶۷’’تف ہے تم پر اور ان پر کہ جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو‘‘. جن کے بارے میں تمہیں معلوم ہے کہ ہاتھ نہیں ہلا سکتے‘ کچھ سنتے نہیں ‘ کچھ بولتے نہیں‘ انہیں پوج رہے ہو! اس پر ان لوگوں کی نگاہوں کے سامنے سے ایک دم پردہ سا ہٹ گیا. قرآن مجید ان کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچ رہا ہے : فَرَجَعُوۡۤا اِلٰۤی اَنۡفُسِہِمْۡ کہ انہوں نے اپنے گریبانوں میں جھانکا. یہ حقیقت ایک لحظہ کے لیے ان کے سامنے منکشف ہوئی کہ سچ بات وہی ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے کہی‘ ہم ہی مغالطے میں ہیں‘ ہم کسی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں‘ لیکن پھر انہوں نے اپنی اُس قومی حمیت‘ اُس عصبیت جاہلیہ کو مجتمع کیا اور اپنی پوری قوتوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف بروئے کار لے آئے. یہاں بھی اسی طرح کا انداز اختیار کیا گیا ہے کہ ذرا سوچو‘ غور کرو‘ یہ ہاتھ ہلانے پر قادر نہیں‘ یہ سب مل جل کر بھی چاہیں تو ایک مکھی تک تخلیق نہیں کر سکتے. ان کو پوج رہے ہو‘ ان سے مرادیں مانگ رہے ہو‘ ان کے سامنے گڑگڑا رہے ہو؟