لیکن تمام آدرشوں‘ تمام نصب العینوں اور تمام آئیڈیلز میں بلند ترین نصب العین اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہے. اس کو علامہ اقبال کہتے ہیں ؏ ’’منزلِ ما کبریاست‘‘ میری منزلِ مقصود اللہ تعالیٰ کی ذات سے کم کہیں نہیں ہے. اسی کو علامہ نے تشبیہہ کے انداز میں وہی لفظ کمند استعمال کر کے یوں کہا ہے ؏ ’’یزداں بکمند آور اے ہمت ِمردانہ!‘‘ انسان کے نصب العین اور ہدف ہونے کا مقام و مرتبہ سوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی کو حاصل نہیں ہے. وہی انسان کا مقصود ہو‘ وہی مطلوب ہو‘ وہی محبوب ہو. اب یہ بلند ترین نصب العین‘ بلند ترین آئیڈیل‘ بلند ترین آدرش اختیار کرنے کے نتیجے میں ایک اعلیٰ ترین شخصیت وجود میں آئے گی‘ جس کا آدرش خدا پرستی ہو‘ جس کا نصب العین رضائے الٰہی ہو‘ جس کا مطلوب و محبوب خود اللہ عزوجل ہو اُس کی اپنی شخصیت بتمام وکمال کیا ہو گی؟ اس کے لیے آپ محمد رسول اللہ کی سیرتِ مطہرہ کا نقشہ ذہن میں لایئے. اس نصب العین سے سینہ اتنا کشادہ ہو جاتا ہے کہ اللہ کی کل مخلوق کے لیے جس کے اندر وسعت اور گنجائش ہو‘ نہ صرف انسان بلکہ حیوانات تک کے لیے شفقت و محبت ہو. رَحْمَۃ لِّلْعَالمِین ہونے کی کیفیت درحقیقت اس شخص ہی کو حاصل ہو سکتی ہے جو صحیح معنی میں خدا کا پرستار ہو‘ جس نے اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق ادا کر دیا ہو‘ اللہ ہی اس کا مطلوب و محبوب ہو گیا ہو.وہ الفاظ یاد کیجیے کہ جو آنحضور کی زبانِ مبارک پر اس دنیا سے رحلت کے وقت بار بار آئے: ’’اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی‘‘ (۱یعنی بس ایک اللہ ہی مطلوب و مقصود ہے اور اب اُسی کی طرف مراجعت کے لیے طبیعت بے چین ہے. مطلوب کمزور اور ضعیف ہے تو طالب بھی کمزور اور ضعیف ہو گا. مطلوب کا مقام و مرتبہ اعلیٰ اور بلند ہو تو اس کے طالب کو بھی ترفع حاصل ہوتا چلا جائے گا.