ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ نبوت و رسالت یا وحی کی اصل غرض و غایت کیا ہے! یہی کہ نوعِ انسانی تک اللہ کا پیغامِ ہدایت پہنچ جائے. انسان روزِ قیامت یہ نہ کہہ سکے کہ اے اللہ! ہمیں معلوم نہیں تھا کہ تو چاہتا کیا ہے؟ تجھے کیا پسند ہے اور کیا ناپسند ہے؟ ان کی اس دلیل کو ختم کرنے اور اللہ کی طرف سے حجت قائم کرنے کے لیے رسول بھیجے گئے اور وحی و رسالت کا سلسلہ جاری فرمایا گیا. اس ضمن میں یہ دو الفاظ اپنے ذہن میں ٹانک لیجیے: قطع عذر اور اتمامِ حجت. یہ ہے مقصد نبوت کا‘ رسالت کا‘ وحی کا اور انزالِ کتب کا. اس مضمون کے بیان میں سورۃ النساء کی یہ آیت بہت اہم ہے :رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ (آیت ۱۶۵’’رسولوں کو ہم نے بھیجا مبشر اور نذیر بنا کر‘ تاکہ رسولوں کی آمد کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی دلیل باقی نہ رہے‘‘. ان کے پاس اپنی غلط روی کے لیے کوئی عذر نہ رہے.

آپ غور کیجیے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ثم وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے اور اتنی لطیف ہے کہ لفظ ’’لطیف‘‘ بھی کسی درجے میں کثافت کا حامل معلوم ہوتا ہے. ادھر انسان ہے پستیوں کا مکین‘ اسفل سافلین‘ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾ (التین) چنانچہ اللہ کاپیغام انسانوں تک پہنچانے کے لیے حکمت خداوندی نے یہ طریقہ تجویز فرمایا کہ درمیان میں دو کڑیاں (links) اختیار کی گئیں. پہلا لِنک‘ پہلی کڑی ہے رسولِ مَلک‘ یعنی فرشتوں میں سے ایک ایلچی اور پیغامبر کا انتخاب عمل میں آیا. آپ جانتے ہیں کہ فرشتہ نورانی مخلوق ہے. اپنی اس نورانیت کی وجہ سے یہ مخلوق خدا سے منجملہ ایک قرب رکھتی ہے. فرشتہ کلام اللہ کی تلقی کرتا ہے اللہ سے. وہ پیغام حاصل کرتا ہے اللہ سے اور اسے جا پہنچاتا ہے انسانوں میں سے ایک منتخب مرد کو‘ ایک چنے ہوئے فرد کو ‘جو اَخلاق اور سیرت و کردار کے اعتبار سے انسانیت کی معراج پر فائز ہوتا ہے. مخلوق ہونے کے اعتبار سے فرشتہ اور انسان دونوں ایک دوسرے سے قرب رکھتے ہیں اور اس بنا ء پر ان کے مابین ایک اتصال ممکن ہے. چنانچہ رسولِ مَلک نے وہ پیغام اللہ سے حاصل کر کے رسولِ بشر تک پہنچایا اور اب رسولِ بشر کی یہ ذمہ داری ہوئی کہ وہ پہنچائے اس پیغام کو اپنے ابنائے نوع تک.اس کا پہنچانا قولاً بھی ہو گا اور عملاً بھی ہو گا. وہ زبان سے بھی اس پیغام کو لوگوں تک پہنچائے گا‘ انہیں اس کے قبول کرنے کی دعوت دے گا اور عمل سے اِس کا ایک نمونہ بھی پیش کر کے حجت قائم کر دے گا کہ یہ دعوت اور یہ پیغام محض کوئی نظری یا خیالی‘ (theoretical) شے نہیں ہے‘ یہ کوئی ناقابل عمل پیغام نہیں ہے‘ بلکہ اس کا ایک عملی نمونہ بھی موجود ہے. اسی لیے قرآن مجید اس نکتے پرخصوصی زور دیتا ہے کہ : لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:۲۱). انبیاء و رسل کی پوری شخصیت نوعِ انسانی کے لیے ایک اُسوہ اور نمونہ ہوتی ہے کہ اپنے تمام بشری تقاضوں کے باوصف وہ وحی الٰہی کی اس تعلیم پر عمل کر کے دکھا دیں اور اس کا ایک عملی نمونہ پیش کر دیں‘ تاکہ لوگوں کے پاس اپنی بے عملی اور غلط روی کے لیے کوئی دلیل اور کوئی عذر باقی نہ رہے. یہ ہے نبوت و رسالت کی اصل غرض و غایت!