اس آیۂ مبارکہ پر پھر اپنی توجہ کو مرکوز کیجیے!
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚٛ۷۷﴾ 
’’اے اہل ایمان! رکوع کرو‘ سجدہ کرو‘ اپنے ربّ کی بندگی کرو (اُس کی اطاعت کلی پر کاربند ہو جاؤ‘ اس کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر )اور بھلے کام کرو‘ (نیکیاں کرو‘ خلق خدا کی خدمت کرو) یہ سب کام کرو گے تو فلاح پاؤ گے! ‘‘

آپ غور کیجیے کہ اگر صرف دعوائے ایمان سے فلاح اور کامیابی کا حصول یقینی ہو جائے تو کیا یہ سارا کلام 
نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ‘ مہمل نہیں قرار پائے گا؟یہ بے معنی بات ہو گی. یہ منطق کی اصطلاح میں تحصیل حاصل قرار پائے گا. جو چیز محض دعوائے ایمان سے یا مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہو جانے سے خود بخود حاصل ہو جائے اس کے لیے اتناکھکھیڑمول لینا‘ اتنی محنت اور مشقت کرنا سعیٔ لاحاصل قرار پائے گا. پھر یہ رکوع و سجود‘ بندگیٔ رب‘ پوری زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ِکلی اور خدمتِ خلق پر کمربستہ ہو جاناگویا یہ سب اضافی چیز قرار پائیں گے! لیکن قرآن حکیم اس غلط فہمی کو دورکردینا چاہتا ہے. جیسے کہ سورۃ العصر میں یہ بات وضاحت سے سامنے آئی تھی کہ نجات کی شرائط چار ہیں!
وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾