یہاں نوٹ کیجیے کہ اس رکوع کے پہلے جزو میں شرک کی مذمت اور اس کے سبب کے بیان کے ضمن میں الفاظ وارد ہوئے تھے : وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ٭ۖ وہی اسلوب یہاں ہے : جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ یہ محنت‘ کوشش ‘ جدوجہد اور تصادم ہو گا اللہ کے لیے‘ جس پر تم ایمان لائے ہو‘ جسے تم نے اپنا مطلوب و مقصود اور محبوبِ حقیقی قرار دیا ہے‘ اور یہ جہاد اور مجاہدہ‘ کوشش اور یہ سعی اتنیہونی چاہیے جتنا اور جیسا کہ اس کا حق ہے. غور کرو کہ تم پر کس کا کتنا حق ہے! کیا تم خود اپنے خالق ہو کہ اپنے نفس کے تقاضوں اور اس کے حقوق ہی کے پورا کرنے میں اپنی تمام توانائیاں ‘ اپنی قوتیں اور اپنی صلاحیتیں صرف کر رہے ہو؟سوچو‘ کس کے تم پر کتنے حقوق ہیں! والدین کے حقوق ہیں‘ ادا کرو! لیکن غور کرو کہ والدین کے دل میں محبت و شفقت کے جذبات پیدا کرنے والا کون ہے؟ تم پر کس کا حق کتنا ہے‘ معین تو کرو. اگر کوئی اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو اپنے وطن کے لیے وقف کر چکا ہے تو کیا صرف وطن کے حقوق کی ادائیگی ہی اس کے ذمے تھی؟ یہ درست ہے کہ وطن کا زیر بارِ احسان ہر شخص ہوتا ہے. وہ زمین کہ جس سے اس کے لیے غذا کے خزانے ابلتے رہے ہیں یقینا اس کا ایک احسان اس کی گردن پر ہے. لیکن احسانات کو ناپو تو سہی‘ کس کا کتنا حق ہے! معلوم ہو گا کہ تمام حقوق پر فائق حق اللہ کا ہے. انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام حقوق اللہ کے حقوق کے تابع ہو جائیں. وہ بات جو شرک کی حقیقت کے ضمن میں ’’شرک فی الحقوق‘‘ کی بحث میں کافی تفصیل سے بیان ہو چکی ہے اسے یہاں اپنے ذہن میں تازہ کیجیے کہ انسان پر اوّلین حق اللہ کا ہے. سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں یہ مضمون آیا تھا : اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ ؕ (آیت۱۴’’کہ شکر کر میرا اور اپنے والدین کا‘‘. اگر یہ فہرست مرتب کی جائے کہ انسان پر کس کس کے حقوق ہیں تو سرفہرست آئے گا اس کا خالق و مالک‘ اس کا پروردگار‘ اس کا پالن ہار. جس نے اسے عدم سے وجود بخشا‘ جو اس کی کل ضروریات فراہم کررہا ہے‘ جو اسے درجہ بدرجہ تدریجی مراحل سے گزارتا ہوا ترقی کے مراحل طے کرا رہا ہے‘ وہ ہے کہ جس کے حقوق سب سے فائق ہیں.

نبی اکرم کا یہ فرمان یقینا صد فی صددرست ہے کہ 
وَاِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِزَوْرِکَ عَلَیْکَ حَقًّا (۱’’تمہارے نفس کا تم پر حق ہے‘ تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے اور تمہارے ملاقاتی کا بھی تم پر حق ہے‘‘.یہ سب حقوق تسلیم‘ لیکن یہ طے ہے کہ اللہ کا حق سب سے فائق ہے. تو اب ذرا سوچو کہ تمہاری توانائیوں کا کتنے فیصد اپنے نفس کے لیے صرف ہو رہا ہے! کتنے فیصد تم اپنی اولاد کے لیے صرف کر رہے ہو‘ کتنا جزو اپنی توانائیوں کا تم نے اپنی قوم یا وطن کے لیے وقف کیا ہے اور اس کا کتنا حصہ ہے جو تم نے اللہ کے لیے وقف کیا ہے؟ وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ کہیں کسی محفل میں ذرا سا کلمہ خیر کہہ دینے یا دین کے کسی کام میں کوئی چندہ دے دینے سے یہ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الصوم‘ باب حق الجسم فی الصوم. سمجھ لینا کہ اللہ کا حق ادا ہو گیا‘انگلی کٹوا کر شہیدوں میں شریک ہونے کی کوشش نہیں تو اور کیا ہے؟ یہاں اس کا سدباب کیا جا رہا ہے: وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ. 

ایک اور پہلو سے بھی غور کیجیے کہ واقعتا انسان کی شخصیت کے دو ہی پہلو ہیں‘ ایک اس کا علم اور فکر ہے‘ اس کی نظری اور فکری قوتیں ہیں‘ اور دوسرا اس کا عمل ہے‘ بھاگ دوڑ ہے‘ سعی و جہد ہے‘ اس کی صلاحیتوں اور توانائیوں کا بروئے کار آنا ہے. ان دونوں کا جو نقطہ ٔعروج ہے اس کو اِس رکوع کے دو حصوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک ہے اللہ کی معرفت‘ اللہ کا اندازہ جیسا کہ اس کا حق ہے : وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ٭ اوردوسرا ہے ا للہ کے لیے محنت‘ بھاگ دوڑ اور سعی و جہد. اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام) کہ انسان کا جینا اور مرنا‘ جاگنا اور سونا‘ بیٹھنا اور اٹھنا‘ یہ سب درحقیقت اللہ ہی کے لیے ہو جائے. اسی کے لیے جدوجہد‘ اسی کے لیے کوشش‘ اسی کے لیے بھاگ دوڑ‘ گویا اسی میں انسان ہمہ تن اپنے آپ کو جھونک دے‘ یہ ہے وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ .