فریضہ ٔرسالت کی ادائیگی اب اُمت کے ذمے ہے!

اگلا لفظ بہت ہی معنی خیز اور قابل توجہ ہے : ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ کہ اے مسلمانو‘ اے ایمان کے دعوے دارو اور اے ہمارے رسول محمد کے اُمتی ہونے کے دعوے دارو! تم اپنا مقام اور مرتبہ پہچانو‘تم اُسی طرح چن لیے گئے ہو جس طرح رسولؐ چنے ہوئے ہیں. لفظ ’’اصطفٰی‘‘ اور ’’اجتبٰی‘‘ عربی زبان کے دو بڑے قریب المفہوم الفاظ ہیں. اگرچہ ان میں وہ ایک باریک سا فرق بھی ہے جو انگریزی کے دو الفاظ ’’choice‘‘ اور ’’selection‘‘ میں ہے. ’’choice‘‘ میں پسند کرنے والے کی پسند کو زیادہ دخل ہوتا ہے‘ جبکہ ’’selection‘‘ فی الاصل کسی مقصد کے لیے ہوتی ہے. کسی معینہ ہدف کے لیے کسی موزوں ترین شخصیت یا جماعت کا انتخاب ’’selection‘‘ کہلائے گا. ’’اِصطِفاء‘‘ میں choice کا معاملہ ہوتا ہے اور اِجتِباء میں selection کا. لیکن اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ دونوں الفاظ بہرحال بہت قریب المعنی ہیں. چنانچہ محمد رسول اللہ کے لیے یہ دونوں ہی الفاظ مستعمل ہیں‘ محمد مصطفی اور احمد مجتبیٰ . چنانچہ وہی لفظ جو رسولوں کے لیے مستعمل ہے یہاں اُمت کے لیے آیا ہے ’’ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ ‘‘ تمہیں چن لیا گیا ہے‘ تمہیں پسند کر لیا گیا ہے‘ ایک مقصد ِعظیم کے لیے تمہارا انتخاب ہو گیا ہے.

یہ مقصد ِعظیم کیا ہے؟ ذہن میں رکھیے کہ اس رکوع سے نصف ِاوّل میں نبوت و رسالت کے جس سلسلۃ الذھب کا بیان آیا تھا‘ اس سنہری زنجیرمیں گویا ایک کڑی کا اضافہ ہوا ہے ختم نبوت کے باعث. اب نہ کوئی نبی آنے والا ہے اور نہ ہی کوئی اور رسول مبعوث ہو گا. چنانچہ خلقِ خدا پر اللہ کی طرف سے اتمامِ حجت کا فریضہ اب اس اُمت کے سپرد کیا گیا ہے جو اپنے آپ کو منسوب کرتی ہے اللہ کے رسول کی طرف. گویا کہ وہ ہدایت جس کی تلقی اوّلاً جبرائیل علیہ السلام نے کی تھی اللہ سے‘ اور پہنچا دیا تھاجسے محمد رسول اللہ تک‘ اور پھر جسے پہنچایا محمد رسول اللہ نے اُمت تک‘ اب اس اُمت محمد کا فریضہ منصبی ہے کہ وہ اسے پہنچائے پوری نوعِ انسانی تک.گویا یہ امت اس سلسلۃ الذھب کی ایک کڑی (link) کی حیثیت سے مستقلاً اس کے ساتھ جوڑ دی گئی‘ ٹانک دی گئی. اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے یہاں الفاظ بالکل ہم وزن لائے گئے ہیں. وہاں فرمایا تھا : اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ اللہ چن لیتا ہے‘ پسند کر لیتا ہے فرشتوں میں سے بھی اپنے ایلچی اور پیغامبر اور انسانوں میں سے بھی. اور یہاں فرمایا: ’’ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ ‘‘ اے مسلمانو‘ اے ایمان کے دعوے دارو! اب تم چن لیے گئے ہو‘ تمہارا انتخاب ہو گیا ہے ایک عظیم مقصد کے لیے.

اُمت ِمسلمہ کا یہ ’’اجتباء‘‘یا چناؤ کس مقصد کے لیے ہوا‘ اس کا جواب آگے آ رہا ہے: 
لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚ کہ تمہارے اس ’’انتخاب‘‘ (selection) کی اصل غرض و غایت یہ ہے کہ رسولؐ گواہ ہو جائیں تم پر اور تم گواہ ہو جاؤ پوری نوعِ انسانی پر یہ مقصد ِعظیم ہے جس کے لیے تمہارا انتخاب ہوا ہے.