یہ ضمنی مضمون تھا. اس کے بعد اگلے الفاظِ مبارکہ کو جوڑ لیجیے ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ سے. کہ اے مسلمانو! تمہارا انتخاب ہو گیا ہے‘ تم چن لیے گئے ہو ایک مقصد عظیم کے لیے. اور وہ مقصد عظیم یہ ہے کہ سلسلۂ نبوت کے ختم ہو جانے کے بعد اب کارِ نبوت کی ذمہ داری مجموعی طور پر تمہارے کاندھوں پر ہے. شہادت علی الناس کا فریضہ جو انبیاء ادا کرتے رہے وہ اب تمہارے ذمے ہو گا.اللہ کی طرف سے خلق خدا پر اتمامِ حجت‘ اللہ کا پیغام خلق خدا تک پہنچا دینا‘ جیسے کہ پہنچا دینے کا حق ہے‘ اور اپنے قول و عمل سے اس دین اور اس توحید کی شہادت دینا‘ جیسے کہ علامہ اقبال نے کہا ؏ ’’دے تو بھی محمدؐ کی صداقت کی گواہی!‘‘ یہ سب کام اب تمہیں بحیثیت اُمت کرنے ہوں گے. لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمْ ’’تاکہ ہو جائیں رسول گواہ تم پر‘‘ انہوں نے تو ابلاغ و تبلیغ کا حق ادا کر دیا‘ انہوں نے اللہ کا کلام تمہیں پہنچا دیا خواہ اس راہ میں انہیں ماریں کھانی پڑیں‘ گالیاں سننی پڑیں‘ استہزاء اور تمسخر کا ہدف بننا پڑا‘ ان پر پتھروں کی بارش ہوئی‘ ان کے دندانِ مبارک شہید ہوئے اور خواہ انہیں اپنے قریب ترین اعزہ کی جانوں کا نذرانہ اللہ کے حضور میں پیش کرنا پڑا. ذرا تصور میں لایئے حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کے اعضاء بریدہ لاشے کو. ناک کٹی ہوئی‘ کان کٹا ہوا‘ اسی پر بس نہیں‘ سینہ چاک کر کے کلیجہ تک چبا ڈالا گیا تھا محمد نے یہ سارے شدائد جھیلے‘ تمام مصیبتیں برداشت کیں‘ مسلسل تیئیس برس تک سخت ترین مشقت سے آپ کو سابقہ رہا.

اس میں تین برس کی وہ قید بھی ہے‘ شعب بنی ہاشم کی قید‘ جس میں سخت ترین فاقہ اور شدید ترین بھوک کی آزمائش بھی آئی. اسی میں وہ یومِ طائف بھی ہے جس کا نقشہ یہ ہے کہ ہر طر ف سے پتھراؤ ہو رہا ہے ‘ اور محمد رسول اللہ کا جسم مبارک لہولہان ہو گیا ہے! پھر اس میں غارِ ثور کا وہ صبر آزما مرحلہ بھی ہے‘ اس میں وہ دامن اُحد کا جاں گسل معرکہ بھی ہے‘ اس میں بدر و حنین کے تمام مراحل آئے‘ لیکن ان تمام مراحل کا نتیجہ کیا ہے؟ محمد نے اللہ کی توحید کی گواہی اس شان سے دی کہ اس کا حق اد اکر دیا. اللہ کے کلام کا ابلاغ اس طور سے فرمایا کہ اس کا حق ادا کر دیا. اللہ کے دین کی گواہی اپنے قول سے بھی دی اور عمل سے بھی . اور اس دین کے نظام کو عملاً برپا کر کے دکھا دیا‘ تاکہ کسی کے پاس کوئی عذر نہ رہے‘ کوئی یہ بہانہ پیش نہ کر سکے کہ اے اللہ مجھے معلوم نہ تھا کہ تو کیا چاہتا ہے!