ہمارے لیے اصل قابل توجہ بات یہ ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع میں حضور نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے گواہی لینے کے بعد آخری بات جو ارشاد فرمائی وہ یہ تھی : ’’فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ‘‘ (۲کہ اب (۱) صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب قول المقری للقاریٔ حسبک.(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الحج‘ باب الخطبۃ ایام المنٰی . پہنچائیں وہ جو یہاں ہیں ان کو جو یہاں موجود نہیں ہیں. اللہ کے پیغام کو نوعِ انسانی تک پہنچانے کا جو فریضہ انبیاء سرانجام دیتے تھے وہ اب اس اُمت کے ذمے ہے. قرآن جو ابدی ہدایت نامہ ہے‘ اس کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ نے لے لیا. اب کسی نئی وحی کی ضرورت بھی نہیں ہے ‘کیونکہ پیغامِ ربانی اپنے اتمامی اور تکمیلی درجے کو پہنچ چکا: اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدۃ:۳چنانچہ تکمیل دین اور اتمامِ نعمت کے ساتھ ہی بعثت انبیاء و رسل کا سلسلہ منقطع کر دیا گیا. نبی اکرم خاتم النبیین اور آخر المرسلین قرار پائے اور اب اللہ کے پیغام کو خلق خدا تک پہنچانے کی ذمہ داری اُمت کے کاندھوں پر ڈال دی گئی. گویا اب کارِ نبوت‘ کارِ تبلیغ‘ کارِ دعوت‘ فرائض رسالت اور نوعِ انسانی پر اتمامِ حجت یہ تمام کام اب تاقیامِ قیامت اُمت کے ذمے ہیں.یہ فرضِ منصبی‘ اے مسلمانو اب تمہارے کاندھوں پر اجتماعی حیثیت سے عائد کر دیا گیا. یہ ہے وہ عظیم فریضہ اور یہ ہے نبوت و رسالت کے اس ’’سلسلۃ الذھب‘‘ (سنہری زنجیر) میں ایک مستقل کڑی کی حیثیت سے شامل کیے جانے کا مقام اور مرتبہ جو اے اُمت محمد ( ) اب تمہیں حاصل ہوا ہے: 

ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ