سات منزلیں یا سات احزاب تو دورِ نبویؐ اور دورِ صحابہؓ میں موجود تھے‘ البتہ دو تقسیمیں بعد میں کی گئی ہیں جن کا دورِ نبویؐ اور دورِ صحابہؓ میں ذکر نہیں ملتا. ایک قرآن حکیم کی تیس پاروں میں تقسیم ہے‘ جو درحقیقت اُس دَور کی تجویز کردہ ہے جب مسلمانوں کا جذبہ ایمان کچھ مدھم پڑ گیا تھا اور تلاوتِ قرآن کے ضمن میں وہ سابقہ معمول‘ کہ ہر ہفتے میں قرآن مجید ختم کر لیا جائے‘ اب کچھ لوگوں پر گراں گزر رہا تھا. چنانچہ اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ قرآن مجید کو تیس حصوں میں تقسیم کر دیا جائے‘ تاکہ ہر مسلمان روزانہ ایک حصہ پڑھ کر ایک مہینے میں تلاوتِ قرآن مکمل کر لیا کرے. لیکن یہ تقسیم فی الواقع بڑی ہی مصنوعی اور بے قاعدہ ( arbitrary) ہے اور قطعی طور پر کسی بھی اصول پر مبنی نہیں ہے. یہاں تک کہ اس میں یہ ظلم بھی کیا گیا ہے کہ سورتوں کی فصیلیں توڑ دی گئی ہیں اور نہایت بھونڈے طریقے سے توڑی گئی ہیں. مثلاً سورۃ الحجر کی ایک آیت تیرہویں پارے میں جبکہ بقیہ پوری سورت چودہویں پارے میں چلی گئی ہے. ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کسی کے پاس قرآن حکیم کا کوئی ایک نسخہ تھا اور اس نے اس کے صفحات گن کر اُسے برابر برابر تیس حصوں میں تقسیم کر دیا. یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک میں جو قرآن مجید طبع ہوتے ہیں ان میں بالعموم ان پاروں کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہوتا.

ایک دوسری تقسیم جو کی گئی‘ اور وہ بھی بغرضِ سہولتِ تلاوت کی گئی ‘ وہ ہے سورتوں کی تقسیم رکوعوں میں. اس میں پیش نظر یہ تھا کہ طویل سورتوں کو جن کا نماز کی ایک رکعت میں پڑھنا مشکل ہے‘ اس طرح کے حصوں میں تقسیم کر دیا جائے کہ ایک حصہ ایک رکعت میں بآسانی پڑھا جا سکے. اس طرح طویل سورتیں رکوعوں میں منقسم ہوگئیں. آخری پارے کی اکثر سورتیں صرف ایک ایک رکوع پر مشتمل ہیں‘ اس لیے کہ ان کو ایک رکعت میں بآسانی پڑھا جا سکتا ہے. اس کے بعد پیچھے کی طرف آیئے تو ذرا طویل سورتیں ہیں جو دو دو ‘رکوعوں کی سورتیں ہیں. پھر مزید طویل سورتیں ہیں جو تین تین اور چار چار رکوعوں پر مشتمل ہیں. یہاں تک کہ قرآن حکیم کی طویل ترین سورۃ ‘ سورۃ البقرۃ ہے جو چالیس رکوعوں پر مشتمل ہے. یہ تقسیم جس نے بھی کی ہے یہ ماننا پڑتا ہے کہ اس نے مضامین کا لحاظ رکھا ہے . عام طور پر رکوع کا اختتام ایسے ہی موقع پر کیا گیا ہے کہ جہاں ایک مضمون مکمل ہو جائے اور سلسلۂ کلام ٹوٹنے نہ پائے. بہرحال پاروں اور رکوعوں کی یہ تقسیم دورِ صحابہؓ میں موجود نہیں تھی‘ یہ بعد کے زمانے سے متعلق ہے.