باہم جوڑا ہونے کی یہ نسبت سورۃ الصف اور سورۃ الجمعہ میں بھی بہت نمایاں ہے. چونکہ ان دو سورتوں میں بعثت ِمحمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے دو رُخ زیربحث آئے ہیں‘ لہذا میرا احساس یہ ہے کہ ان پر غور و فکر کرنے والا ہر شخص اپنے باطن میں ان سورتوں کے ساتھ قلبی اور ذہنی مناسبت کی ایک عجیب اور نرالی کیفیت محسوس کرتا ہے. ایک سورت یعنی سورۃ الصف کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ محمدرسول اللہ کا مقصد بعثت کیا ہے! یہ موضوع اپنی جگہ نہایت اہم ہے‘ اس لیے کہ کسی بھی شخص کے کارنامہ حیات کو assess کرنے (جانچنے) کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ متعین کیا جائے کہ اس کا ہدف کیا تھا‘ وہ کیا کرنے چلا تھا اور اس کی منزلِ مقصود کون سی تھی. اس پہلو سے سیرتِ محمدیؐ کے مطالعے کے لیے واقعتا یہ سورۂ مبارکہ اور بالخصوص اس کی مرکزی آیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے‘ کہ یہ سمجھا جائے کہ نبی اکرم کا مقصد بعثت کیا تھا اور آپؐ کا فرض منصبی کیا تھا! یہ ہے مرکزی مضمون سورۃ الصف کا. چنانچہ ہم دیکھیں گے کہ اس سورۂ مبارکہ میں تفصیل سے یہ مباحث آئے ہیں کہ نبی اکرم کے اس فرضِ منصبی کا تقاضا ہے کہ جو بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اس جدوجہد میں رسولؐ ‘کا ہاتھ بٹائیں‘ رسولؐ کے دست و بازو بنیں‘ آپؐ کے مشن کی تکمیل میں اپنی جان اور مال‘ اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو صرف کردیں ‘اور اگر ضرورت پڑے اور وقت آئے تو اس راہ میں اپنی جان بھی نچھاور کر دیں. یہ گویا ان کے ایمان کی صداقت کی دلیل ہو گی. اس پہلو سے واقعہ یہ ہے کہ اس سورۃ الصف میں جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا مضمون اپنی منطقی انتہا اور اپنے مرتبہ کمال کو پہنچ گیا ہے. یہی وجہ ہے کہ اس سورۂ مبارکہ کو مطالعہ قرآنِ حکیم کے منتخب نصاب کے اس چوتھے حصے میں رکھا گیا ہے جو ’’تواصی بالحق‘‘ کی تشریحات پر مشتمل ہے اور جس کا جامع عنوان ہے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘.

ذہن میں رہے کہ اس منتخب نصاب میں جہاد کی بحث کا آغاز سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴ سے ہوا تھا: 
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ .پھر آیت ۱۵میں ایمانِ حقیقی کی تعریف (definition) اِن الفاظ میں آئی : اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ ’’حقیقت میں تومؤمن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول( ) پر ایمان لائے پھر وہ شک میں نہیں پڑے‘ اور انہوں نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا‘‘. جہاد فی سبیل اللہ کا ہدفِ اوّلین یا اس کی ابتدائی منزل کا ذکر سورۃ الحج کی آخری آیت کے حوالے سے ہمارے سامنے آ چکا ہے. یعنی دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا کرنا‘لوگوں پر اِتمامِ حجت کرنا یا بالفاظِ دیگر ’’شہادت علی الناس‘‘ کا فریضہ ادا کرنا جہاد فی سبیل اللہ کا اوّلین ہدف ہے. اسی جہاد فی سبیل اللہ کی آخری منزل‘ اس کی غایت قصویٰ یا اس کا ہدفِ آخریں ہے اللہ کے دین کا غلبہ. اور یہ ہے وہ اہم مضمون جو اس سورۃ الصف میں ہمارے سامنے آئے گا.

بعثت نبویؐ کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ وہ اساسی منہجِ عمل اور وہ بنیادی طریق کار کون سا تھا جس پر عمل پیرا ہو کر محمد ٌ رسول اللہ نے اپنے اس فرضِ منصبی کو ادا کیا اور اپنے اس مشن کی تکمیل کی جس کا تعین سورۃ الصف میں کیا گیا ہے. یہ ہے سورۃ الجمعہ کا مرکزی مضمون . اس پہلو سے سیرتِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مطالعے میں ان دونوں سورتوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے. ان دونوں سورتوں نے مل کر گویا ایک مضمون کی تکمیل کر دی کہ نبی اکرم کا مقصد ِ بعثت کیا تھا‘ اور اس کے لیے آپؐ کا اساسی طریق کار اور بنیادی منہجِ عمل کون سا تھا!