اس سے پہلے کہ ہم سورۃ الصف کی مرکزی آیت پر غور شروع کریں‘ ایک بنیادی حقیقت کی طرف توجہ کر لینا مفید ہو گا. ہماری اس گفتگو میں بار بار نبی اکرم کے مقصدِ بعثت کا حوالہ آیا ہے. تو یہ جان لینا چاہیے کہ نبی اکرم کے مقصد ِ بعثت کی دو شانیں ہیں. اس لیے کہ اگرچہ آپؐ ‘بھی یقینا دوسرے انبیاء کی طرح اللہ کے ایک نبی ہیں‘ لیکن آپؐ صرف نبی نہیں بلکہ خاتم النبیین بنا کر بھیجے گئے ہیں. اسی طرح اگرچہ آپ کو بھی دیگر رسولوں کی طرح رسالت سے سرفراز کیا گیا ہے‘ لیکن آپؐ ‘ صرف ایک رسول نہیں‘ آخر المرسلین بھی ہیں. گویا آپؐ ‘ کی بعثت کے مقاصد میں وہ تمام چیزیں بھی شامل ہیں جو تمام نبیوں اور رسولوں کے پیش نظر تھیں‘ اوراضافی طور پر آپؐ کے مقصد بعثت کی ایک خصوصی اور امتیازی شان ختم نبوت اور ختم رسالت کے حوالے سے ہے جس میں آپؐ ‘تمام انبیاء و رُسل میں ممتاز ہیں.

ختم نبوت اور ختم رسالت کے ایک پہلو سے توہم سب خوب اچھی طرح واقف ہیں‘ یعنی یہ کہ نبی اکرم کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا‘ نہ کوئی صاحب ِشریعت نبی اور نہ کوئی بغیر ِشریعت نبی‘ نہ کوئی ظلّی نبی اور نہ ہی کوئی بروزی نبی! آپؐ پر ہر نوع کی نبوت و رسالت ختم ہو گئی‘ لیکن ختم نبوت و رسالت کا دوسرا اور اہم تر پہلو یہ ہے کہ آپؐ پر نبوت و رسالت کا محض اختتام ہی نہیں ہوا‘ اتمام بھی ہوا ہے‘ تکمیل بھی ہوئی ہے. نبی اکرم کی بعثت کا یہ وہ امتیازی پہلو ہے جو بالعموم ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے.حاصل کلام یہ کہ آپ کا بنیادی مقصد ِ بعثت یقینا وہی ہے جو تمام انبیاء اور تمام رسولوں کا تھا‘ لیکن آپؐ کے مقصد ِ بعثت میں ایک تکمیلی اور اتمامی شان بھی ہے جس کی حیثیت 
ختم نبوت اور تکمیل رسالت کے عکس اور پرتو کی ہے اور اس میں کوئی دوسرا نبی اور رسول آپؐ کے ساتھ شریک نہیں! سورۃ الصف میں درحقیقت نبی اکرم کے مقصد بعثت کے اسی پہلو کی طرف اشارہ ہے اور اسی کے حوالے سے جہاد و قتال کا موضوع تفصیل سے زیربحث آیا ہے.

جہاں تک رسول اللہ کے اس بنیادی مقصد ِبعثت کا تعلق ہے جو تمام انبیاء اور رُسل کا مشترکہ مقصد ِبعثت رہا ہے‘ اس کے بارے میں یہاں کسی تفصیلی بحث کی ضرورت نہیں ہے. اس حوالے سے جو فرائض نبوت دیگر انبیائے کرام علیہم السلام ادا کرتے رہے وہی فرائض آپ کوبھی تفویض ہوئے . قرآن حکیم میں کئی مقامات پر اس حقیقت کو بیان کیا گیا کہ :

وَ مَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۚ (الکہف:۵۶
’’اور ہم رسولوں کو نہیں بھیجتے مگر مبشر اور نذیر بنا کر.‘‘

بعثت انبیاء و رُسل کے ضمن میں یہ اللہ کا ایک عمومی قاعدہ ہے. چنانچہ یہی بات رسول اللہ کے بارے میں بھی قرآن میں وارد ہوئی ہے:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿۱۰۵﴾ۘ (بنی اسراء یل) 
’’اور (اے نبی!) ہم نے نہیں بھیجا آپؐ ‘کو مگر بشیر اور نذیر بنا کر.‘‘

اسی طرح ہر نبی اپنی جگہ ہدایت و رہنمائی کا ایک روشن چراغ ہے‘ ہر نبی معلم ہے‘ ہر نبی مربّی اور مزکی ہے‘ ہر نبی داعی ہے‘ مبلغ ہے اور مذکر ہے. یہ ساری حیثیتیں جملہ انبیاءِ کرام علیہم السلام میں مشترک ہیں. چنانچہ محمد ٌرسول اللہ میں بھی یہ تمام حیثیتیں جمع ہیں. اگرچہ ان میں سے ہر ایک حیثیت کے اعتبار سے بھی نبی اکرم ایک امتیازی شان کے حامل ہیں ؏ ’’ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است!‘‘ تاہم یہ وہ مشترک اوصاف اورحیثیتیں ہیں جو تمام انبیاء و رُسل کو حاصل تھیں. سورۃ الاحزاب کی یہ مشہور آیت تمام قارئین کو یاد ہو گی:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾ 

’’اے نبیؐ ! ہم نے آپؐ ‘کو بھیجا ہے شاہد (گواہ) بنا کر ‘مبشر بنا کر اور منذر بنا کر (یعنی سیدھی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے بشارت دینے والا بنا کر اور فکری و عملی کج روی اختیار کرنے والوں کے لیے خبردار کرنے والا بنا کر). اور اللہ کی طرف بلانے والا اس کے حکم سے اور (ہدایت کا )ایک روشن چراغ بنا کر.‘‘ یہ تمام حیثیتیں مشترک ہیں نبی اکرم اور جملہ انبیاء و رُسل میں. جہاں تک اس بنیادی مقصد ِبعثت کا تعلق ہے اس کے ضمن میں قرآن حکیم کی سب سے جامع اصطلاح ’’شہادت علی الناس‘‘ کی ہے. ہمارے اس منتخب نصاب میں سورۃ الحج کی آخری آیت کے درس میں ’’شہادت علی الناس‘‘ کا موضوع تفصیل سے زیربحث آیا ہے. اور وہیں یہ توجہ بھی دلائی گئی ہے کہ یہ مضمون ایک عکسی ترتیب کے ساتھ سورۃ البقرۃ میں بھی جوں کا توں موجود ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا (آیت ۱۴۳

اس آیۂ مبارکہ کے حوالے سے یہ بات بڑی وضاحت سے ہمارے سامنے آئی تھی کہ ختم نبوت و رسالت کے بعد ’’شہادت علی الناس‘‘ کی ذمہ داری اب اُمت مسلمہ کے کاندھے پرآچکی ہے. اس کے لیے سعی وجہد‘ اس کے لیے ایثار و قربانی‘ اس کے لیے اوقات اور صلاحیتیں کھپانا اور مال و جان کا لگانا درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ کی غایتِ اولیٰ ہے. یہ مقصد اوّلین ہے جہاد فی سبیل اللہ کا! اور جہاں تک تعلق ہے محمد ٌرسول اللہ کے مقصد بعثت کی امتیازی اور تکمیلی شان کا‘ اس کے اعتبار سے بھی ایک فرضِ منصبی اب تاقیامِ قیامت اُمت مسلمہ کے کاندھے پر ہے. محمد ٌرسول اللہ کے مشن کی تکمیل اب ایک ذمہ داری کے طور پر منتقل ہو چکی ہے آپؐ کے ماننے والوں پر‘ جو اپنے آپ کو نبی اکرم کی شفاعت کا حق دار سمجھتے اور آپؐ سے اپنی نسبت پر فخر کرتے ہیں. یقینا آپ کی اُمت میں سے ہونا مسلمانوں کے لیے موجب صد افتخار ہے‘ لیکن جہاں یہ بہت بڑی فضیلت کی بات ہے وہاں اتنی ہی بڑی ذمہ داری کا معاملہ بھی اس سے وابستہ ہے؏ 

’’جن کے رتبے ہیں سوا اُن کی سوا مشکل ہے!‘‘

اس پہلو سے سورۃ الصف کی بڑی اہمیت ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ نبی اکرم کے مقصدِ بعثت کی امتیازی شان کیا ہے اور اس کے ضمن میں کیا عملی ذمہ داریاں ہیں جو آپؐ کے ماننے والوں پر‘ آپؐ ‘ کی اُمت پرعائد ہوتی ہیں!