اس تمہید کے بعد اب ذرا اس آیۂ مبارکہ کے ایک ایک لفظ پر غور کیجیے: ہُوَ الَّذِی ’’وہی ہے وہ‘‘. یہاں اشارہ ہے ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف. اس لیے کہ سورۃ الصف میں جو آیت اس آیت سے متصلاً قبل وارد ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ: یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸﴾ ’’یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں‘ اور اللہ اپنے نور کا اتمام فرما کر رہے گا‘ خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘. اس پہلو سے جب ’’ھُوَ‘‘ سے اگلی آیت شروع ہوئی تو معین ہو گیا کہ اس سے مراد ہے ذاتِ باری تعالیٰ.

آگے چلئے: 
اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ ’’(وہی ہے اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول( ) کو‘‘. ظاہر بات ہے کہ یہ ذکر ہے محمد کا. عربی زبان میں اَرْسَلَ‘ یُرْسِلُ‘ اِرْسَالًا کا مفہوم ہے بھیجنا. یعنی کسی کو ایلچی بنا کر‘ سفیر بنا کر یا پیغمبر بنا کر بھیجنا. یہاں آنحضور کے حوالے سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مختلف انبیاء و رُسل ( علیہم السلام) کے اَسماء کے ساتھ ان کی بعض خصوصی نسبتوں کا ذکر ملتا ہے. مثلاً حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ صفی اللہ کے الفاظ معروف ہیں. اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کو نجیح اللہ‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ‘ حضرت موسٰی علیہ السلام کو کلیم اللہ اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو روح اللہ کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے. لیکن اس فہرست میں حضرت محمد کے نام کے ساتھ ’’رسول اللہ‘‘ ہی کے الفاظ معروف و مشہور ہیں. غور کرنے پر یہ حقیقت کھلے گی کہ اگرچہ نوح علیہ السلام بھی اللہ کے رسول تھے‘ موسٰی علیہ السلام بھی اللہ کے رسول تھے‘ عیسٰی علیہ السلام بھی اللہ کے رسول تھے‘لیکن اس لفظ ’’رسول‘‘ کا مصداقِ کامل اور مصداقِ اَتم ہیں محمد ٌرسول اللہ  . رسالت کا ادارہ تکمیل کو پہنچا ہے محمد ٌ رسول اللہ کی ذاتِ مبارکہ میں. گویا آپؐ ‘کا امتیازی لقب یا امتیازی شان ہی یہ ہے کہ آپ ’’رسول اللہ‘‘ ہیں. سورۃ الفتح میں آپ کی اسی نسبت کو نمایاں کیا گیا ہے : مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ... (آیت ۲۹’’محمد اللہ کے رسول ہیں‘ اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ہیں‘ آپس میں رحم دل ہیں…‘‘ اس میں گویا اس حقیقت کی جانب ایک لطیف اشارہ موجود ہے جس کی جانب پہلے توجہ دلائی جا چکی ہے کہ رسالت اپنے مرتبہ کمال کو پہنچ گئی محمد ٌ رسول اللہ کی ذات میں.