اب آگے بڑھنے سے پہلے ایک اہم علمی حقیقت کی طرف توجہ مبذول فرما لیں. اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں. اب ذرا ذہن کے سامنے ایک سوالیہ نشان لایئے کہ آنحضور کی بعثت کا وقت معین کرنے میں اللہ کی کون سی حکمت تھی؟اس کی تفتیش کیجیے تو عجیب حقائق سامنے آتے ہیں. واقعہ یہ ہے کہ اس کرۂ ارضی پر نسل ِانسانی کی تاریخ اور تاریخِ نبوت دونوں ساتھ ساتھ چلی ہیں. حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان ہی نہیں پہلے نبی بھی تھے . انسانیت اور نبوت کے یہ قافلے ساتھ ساتھ چلے ہیں اور دونوں قافلوں نے ارتقائی مراحل طے کیے ہیں. انسان نے بھی ارتقائی مراحل طے کیے ہیں اور نبوت و رسالت میں بھی ایک ارتقاء کا عمل جاری رہا ہے. اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسان نے آج سے چودہ سو برس پہلے دو اعتبارات سے عہد طفولیت سے قدم نکال کر اپنی جوانی میں قدم رکھا ہے. قرآن مجید میں الفاظ آتے ہیں : حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ (الاحقاف:۱۵’’جب وہ اپنی پوری قوت (پختگی) کو پہنچ گیا…‘‘. تو نسل انسانی بحیثیتِ مجموعی دو اعتبارات سے ایک بلوغ اور پختگی کو پہنچی ہے اُس وقت جبکہ محمد ٌ رسول اللہ کی بعثت ہوئی. انسانی ذہن اور اس کے فکر و شعور کے ارتقاء کا ایک عمل مسلسل جاری رہا ہے. اور جس طرح ایک بچے پر عہد طفولیت کے بعد لڑکپن‘ جوانی اور پھرعقل کی پختگی کے سارے اَدوار آتے ہیں اسی طرح نسل انسانی ان تمام مراحل سے گزری ہے. انسان کو کامل اور مکمل ہدایت روزِ اوّل سے نہیں دی جا سکتی تھی. اور یہ اس لیے نہیں کہ ’’نعوذ باللّٰہ من ذلک‘‘ اُس وقت اللہ کے پاس کامل ہدایت تھی نہیں. بلکہ اللہ کے پاس تو تھی‘ لیکن انسان ابھی اس قابل نہ تھا کہ اُس کو حاصل کر سکتا. ذہنی اور فکری اعتبار سے وہ ابھی اس سطح تک نہ پہنچا تھا کہ اس کو ابدی ہدایت نامے کا اہل سمجھا جاتا. لہذا عبوری دَور میں ہدایات دی جاتی رہیں‘ کتابیں نازل ہوتی رہیں‘ صحیفے اُترتے رہے‘ ابتدائی احکام دیے جاتے رہے‘ تاآنکہ انسان اپنی عقل و شعور کی پختگی کو پہنچ گیا اور فکر کی سطح کے اعتبار سے اس کا اہل ہو گیا کہ ابدی ہدایت نامہ اب اسے دے دیا جائے. یہ وہ وقت ہے جبکہ محمدٌ رسول اللہ کی بعثت ہوئی ہے.