اب آیئے دوسرے مضمون کی طرف! ’’دِیْنِ الْحَق‘‘ کے الفاظ میں درحقیقت نسلِ انسانی کے ایک اور اعتبار سے بلوغ کو پہنچنے کی طرف اشارہ بھی ہے. اس سے پہلے بھی بعض مقامات پر اشارے کیے گئے ہیں کہ انسان نے انفرادیت سے تدریجاً اجتماعیت کا سفر طے کیا ہے. کبھی صرف ایک قبیلے کی زندگی تھی‘ پھر شہری ریاستیں وجود میں آئیں‘ پھر بڑی بڑی مملکتیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں. یہ عظیم سلطنتوں کا دَور تھا جب محمدٌ رسول اللہ مبعوث ہوئے. اُس وقت قیصر و کسریٰ کی عظیم سلطنتیں قائم تھیں جن کے مابین تاریخ کئی سو برس سے جھولا جھول رہی تھی.ان سلطنتوں کی لکھوکھ ہا کی تعداد میں مستقل اور تیار فوجیں‘ (standing armies) تھیں. یہ تربیت یافتہ مسلح افواج تھیں. یہ وہ دَور تھا جبکہ محمد عربی کی بعثت ہوئی ہے. گویا کہ انسان اجتماعی اعتبار سے بھی اب اس سطح پر آ گیا تھا کہ اس کی ضرورت اب ایک اجتماعی نظام کی تھی. صرف انفرادی اخلاقیات اب اس کی ضرورت کی کفالت نہ کر سکتے تھے.

انفرادی اخلاقیات کے اعتبار سے حضرت مسیح علیہ السلام کہیں پیچھے نہیں ہیں. لیکن اب ضرورت تھی ایک اجتماعی نظام کی‘ ایک ایسے نظامِ عدل وقسط کی جس میں انسانی زندگی کے جو بھی متصادم (conflicting) تقاضے ہیں ان کو اس طریقے سے سمو دیا جائے کہ ان میں اعتدال بھی ہو اور توازن بھی ہو‘ کوئی تقاضا کسی دوسرے تقاضے کے نیچے دب نہ جائے‘ انفرادیت بھی مجروح نہ ہو اور اجتماعیت کے حقوق بھی محفوظ رہیں. مرد کی قوامیت بھی مجروح نہ ہو اور عورت کے حقوق بھی اس طرح پامال نہ ہو جائیں کہ وہ بھیڑ بکری کی طرح صرف ملکیت بن کر رہ جائے. اسی طرح زندگی کے اندر جو مختلف پیچیدگیاں پیدا ہو چکی تھیں اور جو مختلف نزاعات وجود میں آ چکے تھے انسان کو اُن سب کا ایک معتدل اور متوازن حل درکار تھا.یہ ہے اس دَور کے انسان کی اصل ضرورت! اور محمد ٌرسول اللہ نے انسان کی اس ضرورت کو پورا کیا. وہ ایک دین لے کر آئے‘ ایک نظام لے کر آئے. یہ نظامِ اجتماعی زندگی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والا نظام ہے اور یہ توازن اور اعتدال کی ایک عجیب کیفیت اپنے اندر لیے ہوئے ہے. یہی توازن اور اعتدال ہے جس کی وجہ سے سورۃ الحدید میں اس دین حق کو ’’اَلْمِیْزَان‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے.یہ میزان ہے‘ یہ تول دینے والی شے ہے‘ افراد کے حقوق کو معین کرنے والی‘ عورت اور مرد کے حقوق و اختیارات اور فرائض کو معین کرنے والی اور تول دینے والی میزان ہے. یہ فرد اور اجتماعیت کے مابین اور سرمائے اور محنت کے مابین توازن پیدا کرنے والی میزان ہے‘ جو محمد ٌرسول اللہ کو دین حق کی شکل میں دے کربھیجا گیا.