دین حق کا نفاذ انقلابی جدوجہد کا متقاضی ہے

یہ بات ذہن میں رکھیے کہ سورۃ الصف کی زیرنظر آیت کے حوالے سے نبی اکرم کا جو مشن سامنے آتا ہے اس کا تقاضا محض دعوت و تبلیغ‘ بشارت و انذار یا تعلیم و تربیت سے ہرگز پورا نہیں ہوتا. اس کے تقاضے کچھ اور ہیں. یہ ایک انقلابی مشن ہے. ایک نظام کو کسی معاشرے پر برپا کرنا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ پہلے وہاں پر موجود نظام کو جڑوں سے اکھیڑا جائے. یہ کام خلاء میں کیا جانے والا نہیں ہے. جہاں بھی دین حق کے نفاذ کی جدوجہد کی جائے گی کوئی نہ کوئی نظام وہاں پہلے سے موجود ہو گا. اُس باطل نظام کے ساتھ لوگوں کے مفادات وابستہ ہوں گے‘ سیادتیں اور چودھراہٹیں ہوں گی‘ لوگوں کے مالی مفادات ہوں گے. آپ جب اُس نظام کو ذرا سا چھیڑیں گے ‘ اس کے خلاف ذرا آواز بلند کریں گے تو نمعلوم کس کس کے کن کن مفادات پر آنچ آئے گی! چنانچہ وہ تمام قوتیں اپنے اس نظام کی مدافعت میں آپ کے خلاف متحد ہو جائیں گی کہ ؏ ’’نظامِ کہنہ کے پاسبانو‘ یہ معرضِ انقلاب میں ہے!‘‘ اپنے نظام کو برقرار رکھنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر وہ سب مجتمع ہو کر آپ کے خلاف صف آراء ہو جائیں گے. تصادم‘ کشمکش اور جہاد وقتال کا مرحلہ لازماً آکر رہے گا. چنانچہ اس مقصد بعثت کے اعتبار سے جو سورۃ الصف کی اس آیت میں محمدٌ رسول اللہ کی بعثت کے لیے معین ہوا ہے‘ انقلابی جدوجہد لازم اور ناگزیر ہے. یہ محض دعوت و تبلیغ سے ہونے والی بات نہیں!

اگرچہ سورۃ الجمعہ کے حوالے سے اگلے درس میں یہ بات آئے گی کہ اس انقلابی جدوجہد کا منہج اساسی یقینا دعوت و تبلیغ ہے‘ اس کے ابتدائی مراحل میں یقینا تعلیم بھی ہے‘ تربیت بھی ہے اور تزکیہ بھی ہے‘ لیکن ان ابتدائی اور اساسی مراحل سے بلند تر سطح پر ایک انقلابی جدوجہد بھی ناگزیر ہے‘ ایک تصادم کہ جس میں کشت و خون کی نوبت بھی آ سکتی ہے. نبی اکرم کی سیرتِ طیّبہ میں جہاں ہمیں دعوت و تبلیغ کا مرحلہ نظر آتا ہے وہاں جہاد و قتال کے مراحل بھی آئے. حنین کی وادی میں آپؐ یہ رجز پڑھتے ہوئے اپنے لشکر کی کمان کرتے اور آگے بڑھتے نظر آتے ہیں: اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبَ‘ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یہ وہ بات ہے جو اُن لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی جنہوں نے نبی اکرم کے مقصد بعثت کی اس منفرد اور امتیازی شان کو نہیں سمجھا کہ آپؐ صرف داعی اور مبلغ نہ تھے‘ آپؐمحض مبشر اور صحیح بخاری، کتاب الجھادوالسیرباب من قاددابۃَ غیرہ الحر ب نذیر نہ تھے‘ آپؐ صرف مزکی ‘ مربی اور معلم نہ تھے‘ آپؐ تاریخ انسانی کے عظیم ترین انقلاب کے داعی اور نقیب بھی تھے.کون انکار کر سکتا ہے اس حقیقت سے کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب وہ ہے جو محمدرسول اللہ نے برپا فرمایا‘ جس نے زندگی کے ہر گوشے کو بدل کر رکھ دیا! ایسا ہمہ گیر انقلاب جس نے لوگوں کے افکار بدلے‘ عقائد بدلے‘ نظریات بدلے‘ کردار بدلے‘ حتیٰ کہ لوگوں کے شب و روز کے انداز اور نشست و برخاست کے طریقے بدل گئے. وہ قوم کہ جس کے اندر کوئی کسی کی بات سننے والا نہ تھا‘ انتہائی منظم قوم بن گئی. اس معاشرہ نے کہ جہاں پڑھنے لکھنے والے لوگ انگلیوں پر گنے جانے کے قابل تھے‘دنیا کو معلم فراہم کیے. نبی اکرم نے نوعِ انسانی کو ایک نئی تہذیب اور ایک نیا تمدن عطا کیا. بلاشبہ یہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب تھا. رسول اللہ کی بعثت کا یہ پہلو کہ آپؐ عظیم داعیٔ انقلاب تھے‘ درحقیقت آپؐ کے اس فرضِ منصبی کا تقاضا ہے جو اِن الفاظِ مبارکہ میں بیان ہوا: لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ 

’’اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری!‘‘

مہاتما گاندھی کے بارے میں غالباً جارج برنارڈ شا نے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے کہ:
".He is a saint among politicians and a politician among saints" 
اگرچہ ؏ ’’چہ نسبت خاک را با عالم ِ پاک‘‘ کے مصداق ان الفاظ کی یا ان جیسے الفاظ کی کوئی دُور کی نسبت بھی آنحضور کی ذاتِ گرامی سے نہیں ہو سکتی‘ تاہم واقعہ یہ ہے کہ سیرتِ نبویؐ کے فہم کے لیے اگر یوں تعبیر کیا جائے تو شاید بات غلط نہ ہو گی کہ :
".He was a revolutionary among prophets and a prophet among revolutionaries" 

یعنی نبیوں اور رسولوں میں آپ کی امتیازی شان یہ ہے کہ آپؐ ایک عظیم انقلابی رہنما ہیں‘ اور انقلابی رہنماؤں میں آپؐ ‘کی منفرد شان یہ ہے کہ آپؐ اللہ کے نبی اور رسول ہیں. آپ نے صرف دعوت و تبلیغ کا کام نہیں کیا‘ بلکہ اس دعوت کی بنیاد پر ایک انقلاب کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا. دعوت و تبلیغ کے ابتدائی مرحلے سے کام کا آغاز کیا اورکل تیئیس(۲۳ )برس میں اس جدوجہد کو ایک نظام کے باقاعدہ قیام اور باضابطہ نفاذ کے تکمیلی مرحلے تک پہنچا دیا.

اگرچہ یہ امر واقعہ ہے کہ اس جدوجہد میں آپؐ ‘کو ان تمام مراحل سے گزرنا پڑا جو کسی بھی انقلابی جدوجہد میں آتے ہیں. زمین پر قدم بقدم چل کرنبی اکرم نے وہ مرحلے طے کیے.آپؐ ‘کو فقر و فاقے کی صعوبت بھی برداشت کرنا پڑی.شعبِ بنی ہاشم میں تین سال کی قید کو ذہن میں لایئے کہ جس میں وہ وقت آیا کہ فقر و فاقے کی شدت سے بنی ہاشم کے دودھ پیتے بچے بلک رہے تھے اور ان کے کھانے کے لیے کوئی چیز میسر نہ تھی‘ سوائے اس کے کہ سوکھے چمڑوں کو اُبال کر اس کا پانی ان کے حلق میں ٹپکا دیا جائے. طائف میں آپ کو شدید پتھراؤ کا سامنا کرنا پڑا. مکے کی گلیوں میں آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے جاتے تھے. یہ منظر بھی چشم فلک نے دیکھا کہ آپ سربسجود ہیں اور ایک شقی انسان عقبہ بن ابی معیط ابوجہل کے کہنے سے اٹھتا ہے اور اونٹ کی نجاست بھری اوجھڑی لا کر شانۂ مبارک پر رکھ دیتا ہے. پھر غارِ ثور کا مرحلہ بھی آیا. 

میدانِ بدر کا وہ نقشہ بھی ذہن میں لایئے کہ اللہ کا رسولؐ ان دونوں لشکروں کے درمیان گھاس پھونس کی ایک جھونپڑی میں سربسجود ہے اور اللہ سے گڑگڑا کر نصرت کی درخواست کر رہا ہے. پھر اُحد کا سخت مرحلہ بھی آیا. آپؐ کے دندانِ مبارک شہید اور چہرۂ انور لہولہان ہو گیا ہے. آپؐ پر کچھ دیر کے لیے غشی طاری ہو جاتی ہے. آپؐ کے انتہائی جاں نثار ساتھی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا لاشہ بے گورو کفن پڑا ہے کہ جسم پر موجود چادر اتنی چھوٹی تھی کہ اگر سر کو ڈھانپتے تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں کو ڈھانپتے تو سر کھل جاتا تھا.نبی اکرم کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا گیا تو آپؐنے فرمایا کہ سر کو چادر سے ڈھانپ دو اور پاؤں پر گھاس ڈال دو.اسی میدانِ اُحد میں آپؐ کے انتہائی قریبی عزیز حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا اعضاء بریدہ لاشہ پڑا ہوا ہے.

آپ کے قلب مبارک کی جو کیفیت ہے اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچنے پر جب آپؐ نے دیکھا کہ گھر گھر سے رونے کی آوازیں آ رہی ہیں‘ شہداء پر اُن کی رشتہ دار خواتین بین کر رہی ہیں‘ تو آپ کی زبان پر بے اختیار یہ الفاظ آگئے : لٰــکِنَّ حَمْزَۃَ لَا بَوَاکِیَ لَــہٗ (۱’’ہائے حمزہ کے لیے تو کوئی رونے والی بھی نہیں!‘‘یہ تمام صدمے نبی اکرم نے دیکھے اور یہ سب سختیاں جھیلی ہیں ‘ تب یہ انقلاب آیا ہے. گویا ؏ ’’اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری‘‘ کے مصداق اس عظیم انقلابی جدوجہد میں نبی اکرم کو اُن تمام مراحل اور مشکلات و موانع کا سامنا کرنا پڑا جو دنیا کی کسی بھی انقلابی جدوجہد میں پیش آتے ہیں. بہرکیف یہاں صرف اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ بعثت محمدیؐ کی یہی (۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب ما جاء فی الجنائز‘ باب ما جاء فی البکاء علی المیت.امتیازی شان ہمارے سامنے رہنی چاہیے جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوئی کہ : ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہ یعنی پورے کے پورے دین (نظامِ اطاعت) پر اس دین حق کو غالب و قائم کردینا یہ ہے بعثت محمدیؐ ‘کی غرض و غایت!