سورۃ الصف کی اس مرکزی آیت کے بعد اگلی ہی آیت میں مسلمانوں سے یہ سوال کیا گیا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾ ’’ اے اہل ایمان! کیا میں تمہاری رہنمائی کروں اُس تجارت (یا کاروبار) کی طرف جو تمہیں نجات دے ایک دردناک عذاب سے؟‘‘یہ انسانی ذہن کے بہت قریب آکر بات کرنے کا انداز ہے کہ تم دُنیوی کاروبار اور اس سے حاصل ہونے والے نفع کو خوب جانتے ہو‘ لیکن ایک کاروبار وہ بھی ہے کہ جس سے حاصل ہونے والا نفع عذابِ الیم سے چھٹکارے کی صورت میں ظاہر ہو گا. اس کاروبار کے نتیجے میں تم دردناک عذاب سے بچ جاؤ گے‘ جہنم کی آگ سے تمہیں رستگاری حاصل ہو جائے گی. یہ سوال کرنے کے بعد جو اب بھی اللہ تعالیٰ نے خود دیا. تعلیم و تفہیم کا یہ بڑا ہی حکیمانہ انداز ہے کہ سوال کیا جائے اور پھر اس کا جواب دیا جائے گا.

فرمایا: 
تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ٖ ’’تم ایمان پختہ رکھو اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر‘‘. یہ مقام بھی ان مقامات میں سے ہے جہاں یہ بات بڑی وضاحت سے سامنے آتی ہے کہ قانونی ایمان کچھ اور شے ہے اور حقیقی ایمان کچھ اور ! خطاب اُن سے ہو رہا ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں. یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کے الفاظ پر غور کیجیے! فرمایا جا رہا ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جو ایمان کا دعویٰ اور اس کا اعلان کر رہے ہو! اور اقرارٌ باللسَان کا مرحلہ طے کر چکے ہو! تم اگر یہ چاہتے ہو کہ تمہیں فی الواقع عذابِ الیم سے چھٹکارا ملے تو اس کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر یقین محکم رکھو. مزید یہ کہ: وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ’’اورجہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ!‘‘ کھپاؤ اُس کی راہ میں اپنی جانیں بھی اور اپنے مال بھی. دیکھئے ’’فی سبیل اللہ‘‘ کا تعین پچھلی آیت میں کیا جا چکا ہے کہ اللہ کے دین کو غالب کرنے اور اس نظامِ عدل و قسط کو قائم کرنے کے لیے جو محمدرسول اللہ دے کر مبعوث کیے گئے ہیں‘ تمہیں اپنی جان اور اپنے مال کو لگانا اور کھپانا ہے. دین کو قائم و غالب کرنا اگرچہ اصلاً فرضِ منصبی ہے نبی اکرم کا‘ لیکن اس کے غلبے کی جدوجہد میں تمہیں اپنی جانوں کا ہدیہ پیش کرنا ہے اور اپنے خون سے اسانقلاب کی آبیاری کرنی ہے. تمہیں اس کی بنیادوں میں اپنی ہڈیوں اور خون کا گارا بھرنا ہو گا! یہ کام اسی طور سے ہو گا اور اسی میں درحقیقت تمہارے ایمان کا امتحان ہے. یہ دلیل ہو گی اس بات کی کہ واقعتا ایمان تمہارے دلوں میں اتر گیا ہے.

اس آیت میں گویا اسی مضمون کا اعادہ ہو گیا جو سورۃ الحجرات میں بیان ہو چکاہے کہ:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 
کہ اپنے دعوائے ایمان میں صرف وہی لوگ سچے ہیں جو اِن دو شرائط کو پورا کریں: (i)یقین قلبی کی یہ صورت کہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ان کا ایمان یقین کی شکل اختیار کر کے دل کے اندر جاگزیں ہو چکا ہو‘اور (ii)س یقین کا عملی مظہر ہو گا جہاد فی سبیل اللہ‘ اللہ کے دین کے غلبے اور اس کے کلمے کی سربلندی کے لیے جان اور مال کا کھپانا. یہ ہے گویا کہ سورۃ الصف کا مرکزی مضمون جو آیت ۹ اور۱۰ کے حوالے سے معین ہو گیا.

اب ہمیں اس سورۂ مبارکہ کا ابتدا سے مطالعہ کرتے ہوئے اس کے تین حصوں اور اُن میں شامل آیات کے باہمی ربط اور بالخصوص اس سورۃ کے مرکزی مضمون کے ساتھ ان کے ربط وتعلق کو سمجھنا ہے. مرکزی مضمون کی تعیین کے بعد بقیہ آیات کو سمجھنا اِن شاء اللہ بہت آسان ہو گا.