اگلی چار آیات میں یہود کی تاریخ کے حوالے سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے اور یہ ان ’’مُسَبِّحَات‘‘ کے مشترک امور میں سے ہے کہ ان میں جابجا بنی اسرائیل کو بطور نشانِ عبرت پیش (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب ذم من مات ولم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو. کیاگیا ہے کہ اے مسلمانو!قول و عمل کا تضاد اور ایمان کے عملی تقاضوں کی ادائیگی سے پہلوتہی‘ یہی وہ اصل جرم تھا کہ جس کی پاداش میں یہود اس مقام اور منصب سے معزول کر دیے گئے جس پر آج تم فائز کیے گئے ہو. چار آیات میں یہود کی تاریخ کے تین اَدوار کا ذکر ہے. فرمایا:
وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ لِمَ تُؤۡذُوۡنَنِیۡ وَ قَدۡ تَّعۡلَمُوۡنَ اَنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ ؕ فَلَمَّا زَاغُوۡۤا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۵﴾
’’اور (یاد کرو) جب کہا تھا موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اپنی قوم سے کہ اے میری قوم کے لوگو! کیوں مجھے ایذا پہنچاتے ہو درانحالیکہ تم خوب جان چکے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف؟ پھر جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو بھی کج کر دیا‘ اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘